خبریں

’مودی سرنیم‘ ہتک عزت کیس: راہل گاندھی کی عرضی مسترد، سزا پر روک سے کورٹ کا انکار

گزشتہ 23 مارچ کوگجرات میں سورت کی ایک عدالت نے کانگریس رہنما راہل گاندھی کو ان کے مبینہ ‘مودی سرنیم’ والے تبصرے کے لیے ان کے خلاف دائر  2019 کے مجرمانہ ہتک عزت کے معاملے میں  دو  سال  جیل کی سزا سنائی تھی۔ اس کے اگلے دن انہیں لوک سبھا سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

راہل گاندھی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

راہل گاندھی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سورت کی ایک سیشن عدالت نے جمعرات (20 اپریل) کو ‘مودی سرنیم’ ہتک عزت کیس میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی سزا پر روک لگانے سے متعلق عرضی  کو خارج کر دیا۔

یہ معاملہ بی جے پی ایم ایل اے اور گجرات کے سابق وزیر پرنیش مودی کی جانب  سے دائر شکایت پر مبنی ہے، جو 2019 میں کرناٹک کے کولار میں راہل گاندھی کی تقریر سے متعلق ہے۔

مبینہ طور پر راہل گاندھی نے ریلی کے دوران کہا تھا، سبھی چور ،  چاہے وہ نیرو مودی ہوں، للت مودی ہوں یا نریندر مودی، ان کے نام میں مودی کیوں ہیں؟

اس سلسلے میں راہل کے خلاف یہ مقدمہ 13 اپریل 2019 کو بی جے پی ایم ایل اے اور گجرات کے سابق وزیر پرنیش مودی نے درج کرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی نے ان تمام لوگوں کو بدنام کیا ہے جن کا سرنیم ‘مودی’ ہے۔

اگر سورت کی عدالت آج راہل گاندھی کی عرضی کو قبول کر لیتی تو لوک سبھا سکریٹریٹ کو ایوان میں ان کی رکنیت بحال کرنی پڑتی۔

کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے کہا کہ پارٹی تمام دستیاب قانونی اختیارات پر غور کرنے کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کرے گی۔ کانگریس لیڈر اور سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی جمعرات کی شام کو پارٹی کے مستقبل کے قانونی اقدامات کے بارے میں میڈیا کو جانکاری دیں گے۔

سیشن کورٹ میں جج رابن موگیرا کے سامنے راہل گاندھی کی اپیل شنوائی  کے لیے آئی تھی۔ جیسا کہ  دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ، جج موگیرا نے تلسی رام پرجاپتی فرضی انکاؤنٹر کیس میں بی جے پی لیڈر اور اب مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے وکیل کے طور پر کام کیا تھا۔ اس معاملے کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر 2024 کے عام انتخابات کے بعدیہ ممکن ہے کہ مفادات کے ٹکراؤ کے سوالات اٹھائے جائیں۔

گزشتہ  23 مارچ کو سورت کی ایک عدالت نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو ان کے مبینہ’مودی سرنیم’ والے تبصرے کے لیے ان کے خلاف دائر  2019کے مجرمانہ ہتک عزت کے معاملے میں دو سال جیل کی سزا سنائی تھی۔

تاہم، اس کے کچھ ہی دیر بعد عدالت نے راہل گاندھی کو 15000 روپے کی ضمانت پر ضمانت دی اور اس کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دینے کے لیے 30 دن کے لیے سزا پر  روک  لگا دی تھی۔

عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 8(3) کے مطابق، اگر کسی رکن پارلیامنٹ کو  کسی جرم کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اور اسے کم از کم دو سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، تو وہ نااہلی کا مجاز ہوگا۔

انہیں قصوروارقرار دیتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ راہل گاندھی نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے مودی سرنیم والے تمام لوگوں کی توہین کی تھی۔

قصوروار ٹھہرائے جانے کے اگلے ہی دن 24 مارچ کوراہل گاندھی کو لوک سبھا سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ وائناڈ کے ایم پی راہل گاندھی کو 23 مارچ 2023 سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد انہیں ان کا سرکاری بنگلہ خالی کرنے کا نوٹس بھی ملا تھا۔

بی جے پی لیڈرسشیل کمار مودی کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کی وجہ سے راہل کو اسی تقریر کی بنیاد پر پٹنہ میں ایک اور ہتک عزت کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی تقریر ہتک آمیز تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ توہین آمیز لگ سکتا ہےاگر اسےپورے طور پر سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے ۔ کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی  ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب راہل پارلیامنٹ میں اڈانی گروپ کے خلاف مسلسل الزامات لگا رہے تھے۔ پارٹی نے کہا ہے کہ یہ ان کو چُپ کرانے کی کوشش کرنے کا بی جے پی کا طریقہ تھا۔

راہل کی سزا اور نااہلی کا سیاسی نتیجہ اتنا زبردست رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی (اے اے پی)، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) جیسے کانگریس کے حریف نےبھی مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔