خبریں

کبھی ان کھلاڑیوں کو اپنی ’بیٹی‘ کہنے والے پی ایم مودی ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر خاموش کیوں ہیں

بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے ذریعے خواتین پہلوانوں کوجنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں وینیش پھوگاٹ، ساکشی ملک سمیت کئی پہلوان نئی دہلی کے جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جنتر منتر پر ایک مظاہرے کے دوران وینیش پھوگاٹ (بائیں) اور ساکشی ملک (دائیں) (درمیان) وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

جنتر منتر پر ایک مظاہرے کے دوران وینیش پھوگاٹ (بائیں) اور ساکشی ملک (دائیں) (درمیان) وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

‘ہم وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایسا کوئی رابطہ نمبر بھی نہیں ہے کہ ہم ان سے رابطہ کر سکیں۔ ہم میڈیا کے ذریعے ہی ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم سے ملنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے اپنی بات رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے بات رکھیں گے تو کیا معلوم کہ انہیں سنائی دے جائےیا دکھائی دے جائے۔

یہ الفاظ ہندوستان کی بین الاقوامی ریسلر وینیش پھوگاٹ کے ہیں۔ اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کر چکیں اور ورلڈ ریسلنگ چمپئن شپ اور کامن ویلتھ گیمز جیسے عالمی سطح کے مقابلوں میں ہندوستان کے لیے میڈل جیت چکیں وینیش کوئی ایسی عام خاتون نہیں ہیں جن کی آواز وزیر اعظم تک نہ پہنچ سکے۔ ماضی میں خود وزیراعظم انہیں ملاقات کے لیے بلا چکے ہیں،انہیں اپنے خاندان کی بیٹی کہہ چکے ہیں، اور آج جب ان کے خاندان کی بیٹی ان سے ملنا چاہتی ہے تو وہ میڈیا کے ذریعےالتجا کر رہی ہے۔

بہرحال، وینیش مزید کہتی ہیں؛

‘میں ہمیشہ دیکھتی ہوں کہ وہ پروگرام کرتے ہیں’من کی بات’، ہمارے اندر بہت سے مخمصے ہیں، کیا وہ کبھی بیٹھ کر ایک لمحے کے لیےبھی سوچتے ہوں گے کہ ہم ملک کی بیٹیاں سڑک پر بیٹھی ہیں۔ ہم ریسلنگ چھوڑنے کی راہ پر ہیں۔ ہم نے اتنے بڑے مجرم کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے، پھر بھی اگر وہ (وزیر اعظم) ہماری ‘من کی بات’ نہیں سن پا رہے ہیں تو ہم خدا سے دعا کریں گے کہ پلیزان کو سنائی  دے کہ ہم کس درد میں ہیں۔

وینیش یہاں جس مجرم کے بارے میں بات کر رہی ہیں، وہ ہیں— ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی ) کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ، جو اتر پردیش کی قیصر گنج لوک سبھا سیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کےممبر پارلیامنٹ بھی ہیں۔ ان کے مجرمانہ ماضی کی تاریخ اس رپورٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اگر ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی بات کریں توگزشتہ کچھ وقتوں کے ان کے ٹوئٹس اور سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘کھیل کے عاشق’ اور ‘کھیلوں کے سچے خیر خواہ’ ہیں۔ خود وینیش پھوگاٹ نےبھی ایک بار ٹوئٹر پر ایسا لکھا تھا۔

اپنےاہل خانہ کے ساتھ وزیر اعظم مودی سے  ملاقات کے بعد انہوں نے لکھا تھا، ‘محترم وزیر اعظم نریندر مودی صاحب سے آج بہت شاندار ملاقات ہوئی۔ کھیل کے لیے ان کے اندر بے انتہا جوش اور محبت ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے آپ کی تشویش سے میں متاثر ہوئی ۔ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ بات چیت کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکالنے کے لیےبہت بہت شکریہ سر۔

لیکن،کھیلوں سے مودی کی نام نہادمحبت کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عام دنوں میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کی کامیابیوں کو سراہنے والے مودی اہم مواقع پر کھیل اور کھلاڑیوں کے مسائل پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ماضی میں ایسا بلائنڈ کرکٹ کے حوالے سے اور ہاکی کے جادوگر میجر دھیان چند کو بھارت رتن دینے کے مطالبے کے دوران بھی دیکھا گیا ہے۔

واضح ہوکہ ہندوستان کے چوٹی کے ریسلرز بجرنگ پونیا، روی داہیا، ساکشی ملک اور وینیش پھوگاٹ سمیت کئی ریسلرز—جنہوں نے مختلف قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کا نام روشن کیا ہے، جنوری کے مہینے میں ڈبلیو ایف آئی کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا کر دہلی کے جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔

وزارت کھیل کی یقین دہانی اور مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل کے بعد انہوں نے ہڑتال ختم کر دی تھی اور اس دوران برج بھوشن کو فیڈریشن کے صدر کی ذمہ داریوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔

لیکن،گزشتہ اتوار کو یہ تنازعہ پھر سے سرخیوں میں آگیا، جب پہلوانوں نے دہلی کے جنتر منتر پر دوبارہ احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا۔ پہلوانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ڈبلیو ایف آئی صدر کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرنے والی مانیٹرنگ کمیٹی کے نتائج کو عام کرے اور دہلی پولیس اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرے۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے  رجوع کیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی ان الزامات کو ‘سنگین’پایا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم مودی کی توجہ ابھی تک ان پہلوانوں کے دھرنے کی طرف نہیں گئی جو راتیں فٹ پاتھ پر گزارنے کو مجبور ہیں۔

ایک وقت تھا جب وزیر اعظم ان پہلوانوں کو بلا کر عزت دیتے تھے، ان سے باتیں کرتے تھے، ان پر فخر کرتے تھے، انہیں ملک کا فخر اور خواتین پہلوانوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیتے تھے، آج صورتحال یہ ہے کہ وہی ‘فخر’ اور وہی ‘بیٹیاں’ ان سے ملنے اور بات کرنے کے لیے التجا کر رہی ہیں۔

دھرنے پر بیٹھے پہلوان بجرنگ پونیا، روی دہیا، ساکشی ملک اور ونیش پھوگاٹ مختلف مواقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے۔ (فوٹوبہ شکریہ: Instagram/Twitter/PMO)

دھرنے پر بیٹھے پہلوان بجرنگ پونیا، روی دہیا، ساکشی ملک اور ونیش پھوگاٹ مختلف مواقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے۔ (فوٹوبہ شکریہ: Instagram/Twitter/PMO)

اس سلسلے میں ساکشی ملک کے الفاظ قابل غور ہیں، وہ کہتی ہیں،’وزیراعظم مودی جی ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ کی بات کرتے ہیں اور سب کی ‘من کی بات’ سنتے ہیں۔ کیا وہ ہماری ‘من کی بات’ نہیں سن سکتے؟ جب ہم تمغے جیتتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے گھر مدعو کرتے ہیں اورہمیں عزت دیتے ہیں اور ہمیں اپنی بیٹیاں کہتے ہیں۔ آج ہم ان سے ہماری ‘من کی بات’ سننے کی اپیل کرتے ہیں۔

ساکشی کا کہنا درست ہے۔ ساکشی نے جب 2016 کے ریو اولمپکس میں ہندوستان کے لیےبرونز میڈل جیتا تھا،تو وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کی تھی، اسی طرح جب گزشتہ ٹوکیو اولمپکس میں بجرنگ پونیا اور روی کمار دہیا نے بالترتیب برونز اور سلور میڈیل جیتا تھا، تب پی ایم مودی نے نہ صرف انہیں ٹوکیومیں فون کرکے بات کی تھی،بلکہ ملک واپسی پر انہیں ملاقات کے لیے بھی بلایا تھا، جہاں ان سے بات کرنے کے کئی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج جب وہی کھلاڑی کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں تو کیا وزیر اعظم مودی کو اس کی خبر نہیں ہوگی؟ جب اولمپک میڈل جیتنے والے پہلوانوں کو ٹوکیو میں فون لگا سکتے ہیں، اولمپک تمغہ جیتنے والوں کو ہریانہ یا ملک کے مختلف حصوں سے ناشتے پر اپنی  رہائش گاہ پر مدعو کر سکتے ہیں، تو لوک کلیان مارگ پرواقع  وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے جنتر منتر کے چند کلومیٹر کے فاصلے پربیٹھے پہلوانوں کوفون لگانایا انہیں اپنی رہائش گاہ پر بلانا تو اور بھی زیادہ آسان ہونا چاہیے۔

الٹا یہ ہو رہا ہے کہ جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا، آج ان کو یہ کہہ کر ذلیل کیا جا رہا ہے کہ ‘ان کا کیرئیر ختم ہو چکا ہے، اسی لیے وہ یہ سب کر رہے ہیں’ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوری 2023 میں پہلی بار دھرنے پر بیٹھنے سے پانچ ماہ پہلےہی کامن ویلتھ گیمز میں انہی پہلوانوں نےتمغے جیتے تھے اور خود وزیر اعظم مودی ان کی تعریف کرتے نظر آئے تھے۔

آخر پانچ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ کہا جا رہا ہے کہ ان کا کیرئیر ختم ہو گیا؟ یہ درد ساکشی کے الفاظ میں جھلکتا ہے، جب وہ یہ کہتے ہوئےرونے لگتی ہیں کہ – ‘ کہا جا رہا ہے کہ ہم ختم ہو گئے ہیں۔ ہمیں صرف انصاف چاہیے…

قابل ذکر ہے کہ اسی ساکشی ملک سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے ایک وقت میں انہیں ‘انسپریشن’ کہا تھا۔

اسی کے ساتھ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ،’ہندوستان کی بیٹی ساکشی نے ہندوستان کے ترنگے جھنڈے کو نئی طاقت دی ہے، نئی عزت دی ہے۔’ اب آج وہی بیٹی، جس نے ترنگے کو طاقت دی تھی، بیٹیوں کی عزت کی خاطر سڑک پر بیٹھ کر بیٹھ کر آنسو بہا رہی ہے۔لیکن وزیراعظم نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

اسی طرح، 19 ستمبر 2022 کو (پہلی ہڑتال سے تقریباً 4 ماہ قبل) کووزیر اعظم مودی اور وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے وینیش اور بجرنگ کےعالمی ریسلنگ چیمپئن شپ میں تمغے جیتنے کے معاملے میں ریکارڈ قائم کرنے پر ان کی شان میں قصیدے پڑھے تھے۔

ویسے بھی23سال کے  روی دہیا،، 28سال کے ونیش پھوگاٹ، 29 سال کے بجرنگ پونیا، اور30 سال کی ساکشی ملک- جو صرف چند ماہ قبل ہی عالمی سطح کے مقابلوں میں ہندوستان کے لیے میڈل لائے تھے، کس لحاظ سے’ختم’ ہو چکے ہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ چونکہ یہ الزام وزیر اعظم کی ہی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن اور دیگر لیڈران لگا رہے ہیں، تو ان پہلوانوں پر فخر کرنے والے  اور ان کی کامیابیوں کے سہارے خود کو ‘کھیل کا عاشق’ کہنے والے  وزیر اعظم کو اپنی خاموشی توڑنی چاہیے۔

اب تو پہلوانوں کی حمایت میں ٹوکیو اولمپکس کے واحدگولڈ میڈلسٹ نیرج چوپڑہ بھی آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ان کھلاڑیوں کو اس طرح دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘مجھے اپنے ایتھلیٹس کو سڑکوں پر انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے ہمارے عظیم ملک کی نمائندگی کرنے اور ہمیں فخرکا احساس  کروانے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ ایک ملک کے طور پر، ہم ہر فرد، جوکھلاڑی ہوں یا نہ ہوں ، کی سالمیت اور وقار کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ جو ہو رہا ہے وہ کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور اسے منصفانہ اور شفاف طریقے سے حل کیاجانا چاہیے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ ٹربیونلز کو فوراً ایکشن لینا چاہیے۔

نیرج چوپڑہ سے لے کر سابق کرکٹرز کپل دیو، عرفان پٹھان اور ہربھجن سنگھ اور سابق اولمپک گولڈ میڈلسٹ ابھینو بندرا اور کھاپ پنچایتوں سے لے کر اپوزیشن تک سبھی پہلوانوں کی حمایت میں سامنے آتے جارہے ہیں، لیکن مہینوں سے وزیر اعظم خاموش ہیں، جبکہ ان کی کامیابیاں پرسب سے زیادہ سرخیاں حاصل کرنے اور کریڈٹ لینے کا کام وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت نےہی کیا تھا۔

اس سلسلے میں بجرنگ کی طرف سے بدھ کو وزیر اعظم سے کہے گئے یہ الفاظ قابل ذکر ہیں؛

آپ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کے نعرے دیتے ہیں، تو آج ہندوستان کی بیٹی سڑک پر آپ سے انصاف کی فریاد کر رہی ہے۔ان کو کیوں نہیں نظر آرہا  کہ چار دن ہو گئے ہیں اور تین ماہ سے احتجاج جاری ہے۔ ابھی تک انصاف کیوں نہیں ہوا؟ جب وہ تمغے جیتتے ہیں تو سب فوٹو کھنچواتے  ہیں،  مبارکباد دیتے ہیں کہ ہماری بیٹیوں نے کمال کر دیا ہے۔ یہ بھی آپ لوگوں کی  ہی بیٹی ہیں۔ یہ بھی پورے ہندوستان کی بیٹی ہیں، جو انصاف کی مانگ کر رہی ہیں، اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ  ہندوستان کی بیٹیوں کے ساتھ انصاف کیجیے۔

انصاف کیوں نہیں مل رہا ہے اور ‘کھیلوں کے نام نہادخیر خواہ ‘ وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں، اس کا اشارہ ساکشی ملک کی ان باتوں میں ملتا ہے، جوانہوں نے دی وائر کو بتایا تھا،’ملزم حکمران جماعت کا رکن ہے اور اس کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تاہم، بجرنگ کو شاباشی دینے والے وزیر اعظم مودی سے پہلوان اس قدر ناراض  ہیں کہ بجرنگ نے ان کے ساتھ والی اپنی تصویرسوشل میڈیا سےہٹا دی ہے۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ ٹوکیو اولمپکس سے پہلے وزیر اعظم مودی نے وینیش اور ان کے خاندان کے ساتھ آن لائن ڈائیلاگ میں وینیش سے پوچھا تھا، ‘کیا آپ پر (مستقبل میں) کوئی فلم آئے گی؟’ اس وقت وینیش ہنس پڑی تھیں، لیکن، اگر ان پر کوئی فلم آتی ہے، تو سڑک پر انصاف کے لیے ان کی جدوجہد اور وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال ضرور اٹھیں گے۔