چالیس سال بعد سوال اب یہ نہیں ہےکہ نیلی میں کیا ہوا؟ بلکہ یہ ہے کہ ہندوستان اب اس کھلے سچ کے ساتھ کیا کرے گا؟ اگر نیلی کے قاتل سزا پاتے، تو 1984 کا سکھ مخالف قتل عام شاید نہ ہوتا۔ اور اگر سکھوں کے قاتلوں کو فوری سزا ملتی، تو 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات شاید نہ ہوتے۔ یہ صرف تاریخ نہیں، بلکہ سبق ہے۔
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ صرف ایک اور آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں۔ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو دہائیوں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
مؤخر روداد: غزہ ٹریبونل اپنی بنیاد میں ایک شہری عدالت ہے، جس کی بنیاد لندن میں 2024 کے آخر میں ڈالی گئی۔ جب ریاستیں خاموش رہیں، جب عالمی عدالتیں بے بس ہو گئیں، جب سلامتی کونسل کی میز پر بار بار ایک ہی ملک کا ویٹو ظلم کی سیاہی کو تحفظ دیتا رہا، تو انسانوں نے خود فیصلہ کیا کہ ضمیر کی عدالت قائم کی جائے۔
ظہران ممدانی ایک نئے عہد کا نمائندہ ہے، جو میل جول سے زیادہ سچائی پر اصرار کرتا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو اس کی شناخت کے حوالے سے پہچانیں — ایک مسلمان، افریقی اور جنوبی ایشیائی نژاد۔ ان کا کہنا ہے؛ ہمیں اپنی شناخت چھپانی نہیں چاہیے، بلکہ اُسے عزت دینی چاہیے۔
مسلم دنیا کا کوئی اتحاد جو ناٹو کی طرح طاقتور اور تزویراتی طور پر وسیع تر عوامل کا حامل ہے، وہ بس پاکستان، افغانستان اور ایران کا اتحاد ہوسکتا ہے، جس کو ترکیہ اور وسط ایشاء کی ترک ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اس سے ان سبھی ممالک کو اسٹریٹجک گہرائی بھی حاصل ہوگی اور کسی دشمن کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان میں کسی کو نشانہ بنا سکے۔
عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے — ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے۔ جمہوریت کا چہرہ زندہ ہے مگر روح خالی ہے۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
یہ احساس اب مسلمانوں میں گھر کرتا جا رہا ہے کہ وہ صرف گنتی میں ہیں، قیادت میں نہیں۔اسی خلا کو اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلین اور پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی پُر کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔
فلسطینی انتظار کررہے ہیں کہ کیا وہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح معمول کی زندگی بسر کرپائیں گے؟ جنگیں ملبہ چھوڑتی ہیں، اور گونج بھی۔جنگ بندیاں نہ ملبہ مٹاتی ہیں نہ گونج۔ ماہرین کہتے ہیں یہ امن نہیں، بلکہ ایک وقفہ ہے۔ مگر غزہ کے لیے وقفہ بھی زندگی ہے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران غزہ پر جاری قتل عام نے جدید تاریخ میں انسانی تباہی کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہزاروں بچوں کی شہادت، براہِ راست نشر ہونے والے قتل عام، دنیا بھر میں سب سے زیادہ معذور بچوں کی تعداد اور اتنے صحافیوں کی ہلاکت کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سمیت تمام جنگوں کا مجموعہ بھی اس کے برابر نہیں آتا۔
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں، جو شبِ سیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے۔
افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔
پروفیسر عبدالغنی بٹ محض سیاست دان نہیں تھے، ایک استاد تھے، ادیب تھے، اور ان سب سے بڑھ کر وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو کشمیر کے دکھوں اور خوابوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔
رفح کراسنگ سے ایک رپورٹ: غزہ اب صرف جنگ کا نہیں بلکہ بھوک کو ہتھیار بنانے کا معاملہ ہے۔ رفح کے گیٹ پر کھڑی خوراک انسانیت کے مردہ ضمیر پر نوحہ پڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر کی طاقتیں، اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس بھوک کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
آر ایس ایس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔
سال 2014کے سیلاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے 80 ہزار کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی ڈریجنگ اور پشتوں کی مضبوطی کا کام ہونا تھا۔ مگر ایک آرٹی آئی کے مطابق،ایک دہائی کے بعد بھی 31 میں سے صرف 16 منصوبے مکمل ہو پائے ہیں۔یعنی 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر عائد کیے گئے تجارتی جرمانوں نے ہندوستانی وزرا اور اہلکاروں کو ماسکو اور بیجنگ کی طرف دوڑنے پر مجبور کردیا ہے، مگر وہ اس کو ‘اسٹریٹجک چابک دستی’کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ اس چابک دستی کو ہندوستان کی مجبوری گر دانتے ہیں اور اس کی پوری وصولی کریں گے۔
آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔
اس پابندی کو ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
اگر ہندوستانی حکومت کے پچھلے چھ سالوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کا ایک ہی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو بے اختیار بناکر مجبور بنایا جائے۔
ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لیے گئے اس فیصلہ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو مؤخر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
آزاد کشمیر کے پہلے ناظم اطلاعات کی کہانی، جن کے بارے میں وقتا فوقتا خبریں چھپتی ہیں کہ انہوں نے ’آزاد کشمیر ‘ کا پرچم ڈیزائن کیا۔
سنگھ کو لگتا ہے کہ مودی کے بعد ایک تو اقتدار کی کشمکش امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان ہوگی، دوسری طرف کسی سنجیدہ طاقتورلیڈرشپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کی کانگریس سے بھی بری حالت ہو جائےگی،جس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔
ماؤ نواز تحریک ہندوستان میں محض ایک سلامتی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی، اقتصادی اور تہذیبی بحران کی علامت ہے۔ یہ شورش معاشرتی ناانصافی، اقتصادی استحصال، اور ریاستی بے حسی کے خلاف ایک پرتشدد ردِعمل ہے۔
پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی تھی۔یوں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے ترکیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ نہ صرف مسلم دنیا کی قیادت کا رول نبھائے، بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کے لیے بھی ایک استعارہ بن جائے ۔
مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔
سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔
دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔
حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔
غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔
پہلگام حملے کے دو دن کے اندر ہی وادی میں گیارہ مکانوں کو تہس نہس کر نے اور گرفتاریوں کے سلسلہ کی وجہ سے خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مکانات ان خاندانوں کے تھے، جن کے افراد خانہ نے واردات میں مدد دی تھی۔ ابھی تو تفتیش کا آغاز بھی نہیں ہوا۔یہ کس طرح کا انصاف ہے؟
ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔
ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔
اردوان نے اپنے سیاسی حریف اور استنبول کے میئر اکرم امام اولو کو گرفتار کر کے اندرونِ ملک اپنی مقبولیت کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ بظاہر یہ قدم ان کے اقتدار کے لیے فوری خطرہ نہیں، مگر عام ترک شہری کے لیے یہ ‘حد سے تجاوز’ کا اشارہ بن چکا ہے۔ ان کی گرفتاری نے گزشتہ دس برسوں میں حکومت مخالف سب سے بڑے مظاہروں کو جنم دیا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک امام اولو کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تقریباً ایک ہزار مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔
جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟