شاید ہی کسی غیر ملکی سربراہ نے کبھی کسی ہندوستانی وزیر اعظم کی اس طرح اعلانیہ بے عزتی کی ہو۔ مودی نے سبکی کا یہ گھونٹ خاموشی سے پی لیا۔ وزارت خارجہ کو بھی بتایا گیا کہ آن ریکارڈ ٹرمپ کے بیان کا جواب نہیں دیا جائے۔ صرف آف ریکارڈ ہی میڈیا میں افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات بتائی جائیں۔
کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک میں کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ لگتا ہے مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔آسام پولیس نے مئی میں ایسے ہی ایک معاملے پوچھ تاچھ کے لئے6 افراد کو حراست میں لیا۔بعد میں معلوم ہوا وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔
بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ۔
آئندہ عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے وزیرا عظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے تین ایشوز پر مشتمل ایک روڑ میپ ترتیب دیا ہوا ہے۔اس میں اترپردیش کے شہر ایودھیامیں بابری مسجد کی جگہ ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر کا ہوا کھڑا کرنا ہے۔
مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کی طرح عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں
دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کی دشواریوں اور عالمی رائے عامہ کو ایک بار پھر ہموار کرنے کی غرض سے ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں نومبر کے آخری عشرہ میں ایک عظیم الشان میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں 65 ممالک کے 750 صحافیوں، دانشوروں، مصنفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حصہ لیا۔
اس پورے ڈرامے کا سنگین پہلویہ ہے کہ بی جے پی شایداب کشمیر کو ملک کی انتخابی سیاست کےلیے مہرے کے طور پر استعمال نہیں کرپائے گی،اس صورت میں وہ انتخابی کارڈ کو پاکستان کی طرف موڑ دے گی۔
اس پورے کیس کا سیریس پہلو یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں صوبہ میں سیکولر پارٹیوں کی حکومت رہی، ان حکومتوں کے زمانے میں عدالتوں میں پیروی اتنی کمزور رہی کہ نچلی عدالت نے تمام قصورواروں کو 2015میں بری کردیا۔
ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔طالبان میں خاصا اثر ورسوخ رکھنے کے باوجود انہوں نے پولیو ڈراپ کے حق میں فتویٰ جاری کیا۔
ایک لبر ل ، روشن خیال مسلمان، جو ہندوستان کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، برادر ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔
غلام نبی آزاد کے پی اے نے کہا؛ ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں او راس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے۔
کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کشمیر میں عسکریت دم توڑ رہی ہے مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
گزشتہ ماہ ایک معاملہ میں ہریانہ میں پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔اس کے علاہ یہ بھی حکم دیاکہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔
حکمراں بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکر اور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔
ایک حساس پڑوسی کے برعکس ہندوستان نے اس خطے میں اپنے آپ کو ایک غیر متوازن پاور کے روپ میں پیش کیا ہے۔پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی نیت سے ہندوستان جنوبی ایشیا ئی تعاون تنظیم سارک میں ایک ذیلی گروپ بنانے کی پلاننگ میں مصروف ہے۔
عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو ہندوستان کو ایسا مخالفانہ ردعمل ظاہر کرنے کا موقع دے سکتی ہو جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو منظم اور متحدہ کرنے کا کام لے سکے۔
یوروپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لئے باضابطہ ایک ہدایت نامہ ہی جاری کیا ہے کہ ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔
ایک کامیاب اور مایہ نازصحافی ہونے کے باوجود آج کل کے اینکروں اور ایڈیٹروں کے برعکس ان میں تکبر کا شائبہ تک نہیں تھا۔
گزشتہ دو سالوں میں تمل ناڈو کے دو اہم سیاسی رہنماوں کا انتقال ہو چکا ہے- ان دنوں صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔
مودی کی حکومت 1955کے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیامنٹ میں پیش کرچکی ہے۔جس کی رو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔
سپاہیوں،سزا یافتہ اور پرانے زیر سماعت قیدیوں کی فوج نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے خوب تواضع کی۔عمران خان نے کپل دیو کی گیندوں پر جب جب چھکے اور چوکے لگائے تھے یا جب سنیل گواسکر کو آؤٹ کیا تھا، اس کی یاد دہانی کرواکے ڈنڈے برس رہے تھے۔
مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کروانے کے لیے اب یہ باورکرایا جا رہا ہے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ کشمیر کے دونوں اطراف شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔
آزادی تو دورکی بات اب تو ڈوگرہ راج کی واپسی ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں کشمیر میں تو اب شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔
مودی اور شریف میں ایک وصف مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں نے پوری سیاست کو اپنی انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرکے، ذاتی وفاداری کو اہمیت دےکر اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑکر، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔
عوام کو سماجی تحفظ فراہم کرانے کے علاوہ جس چیز نے ڈنمارک کو بدعنوانی سے پاک رکھا ہے وہ سیاست دانوں کی سادہ زندگی ہے۔
شجاعت کے ساتھ میری دوستی کا سفر غالباً 1988 میں گورنمنٹ کالج سوپور سے شروع ہوا۔ جرنلزم اور سماجی سرگرمیاں تو انکی روح میں تھیں۔کالج میں ہی اسنے ایک’پیرراڈایز رائٹرز فورم ‘تشکیل دی تھی جس کی نشستیں کالج کے سبزہ زار میں چنار کے پیڑوں کے تلے ہوتی تھیں۔
اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے مرکزی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی ایک اسٹڈی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی اور نظریہ سے وابستہ ہے۔
اس کتاب سے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے ہندوستانی حکومت کو با ور کرایا جائے، کہ ہندوستانی انٹلی جنس کے اس ماہرکی باتو ں کو سنجیدگی سے لیکر امن مساعی کا آغاز کرکے عوامی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف پیش رفت کریں۔
ہندوستان کے میڈیا اور تاریخ دانوں نے اس واقعہ کو جابرانہ ٹیکس نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کے بجائے ہندو حکمران کے خلاف مسلم رعایا کی بغاوت سے تعبیر کرکے تاریخ کے ساتھ بدترین خیانت کی ہے۔ ماہ مئی کا پہلا دن کرہ ارض میں محنت […]
کشمیر کے کسی عام قصبہ یا دیہات میں این سی، پی ڈی پی یا حریت کے ورکر کی سیاسی زبان تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔یہ پارٹیاں بھی کھبی گراؤنڈ پر اپنے آپ کوہندوستان نواز نہیں کہلواتی ہیں۔
بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحو ل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوؤں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
نچلی عدالتوں کا حا ل بے حال ہے ہی ، لیکن حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ جن ہنگامی حالات سے گزرا اس کے بعد خود بی جے پی حامی اور اٹل بہاری واجپئی حکومت کے اٹارنی جنرل سولی سوراب جی بھی چیخ اٹھے کہ ’’ہم کو سرکاری جج […]
جسٹس سچر اب ا س دنیا میں نہیں رہے مگر انصاف کے لیے جنگ اور بے باکی کے لیے دہلی میں لاہور کا دل رکھنے والا یہ شخص تاریخ میں امر رہےگا۔
ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے تاکہ آئندہ کسی وقت 47 کو دہرا کر اس خوف زدہ آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جاسکے اور جموں خطے کو […]
حیرت ہے کہ اتنے اہم معاملے میں ہندوپاک خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی رہی؟ دونوں پڑوسی ملکوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکانزم وضع کریں تاکہ دونوں طرف سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچا جاسکے۔
جموں میں تو اب کئی سالوں سے مسلم اکثریت کے سینوں میں میخ گاڑنے کے لیے گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کے یوم پیدائش تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔
چاہے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات ہوں یا سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کےمعاملات۔ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر ہندو قوم پرست آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کر، پاکستان کا حوا کھڑا کرکے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو گر م رکھ کر ہندوؤں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔