پورے ہندوستان سےموصول ہونے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات لوک سبھا حلقہ اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں یکساں اور بنیادی ایشو ہیں۔
مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اس اپوزیشن اتحاد کے لیے اہم ہیں کیونکہ یہاں بی جے پی اور کانگریس کے بیچ سیدھا مقابلہ ہے۔
کیا وزیر اعظم مودی اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ ‘سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت، جو 2028 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر ہے’ اسے 80 کروڑ لوگوں میں مفت اناج کیوں تقسیم کرنا پڑ رہا ہے؟
حال ہی میں جاری حکومت کے پیریڈک فورس سروے (پی ایل ایف ایس) میں ‘سیلف ایمپلائمنٹ’ میں اضافے کی بات کہی گئی ہے۔ تاہم، ماہر اقتصادیات سنتوش مہروترا کا کہنا ہے کہ سیلف ایمپلائمنٹ میں اضافے کا اعداد و شمار ‘ان پیڈ—فیملی لیبر’ سے منسلک ہے، جس میں 2017-18 سے 2023 کے درمیان بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ہندوستانی سیاست کے ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پرملیکارجن کھڑگے نے ‘انڈیا’ اتحاد کے درمیانی فاصلے کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ اس نوع کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو کھڑگے کے حق میں جاتی ہیں۔
منی پور میں تشدد کے حالیہ واقعات پر ان کے بیان میں دوسروں کے رنج والم کے حوالے سے فطری انسانی ردعمل کاواضح فقدان نظر آتا ہے۔
این سی پی میں پھوٹ کے بعد شرد پوار کے اگلے قدم کا انتظار ہے۔ مہاراشٹرکو بخوبی جاننے کا دعویٰ کرنے والے بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پوار کو اس بات کا علم تھا اور یہ سب ان کی خاموش رضامندی سے ہوا ہے۔
کولکاتہ اور چنئی کے درمیان مین ٹرنک روٹ پر کورومنڈل ایکسپریس کی واپسی راحت کی حقیقی وجہ نہیں ہو سکتی ،کیونکہ ریلوے کے بوسیدہ نظام میں فی الوقت بہتری ناگزیر ہے اور اس کی خامیوں کو دور کیا جانا باقی ہے۔
دو ہزار روپے کے نوٹ رکھنے والوں کے لیے اب ایک واضح ترغیب ہے کہ وہ بینک میں رقم جمع کرنے کے بجائے صرف ایکسچینج کے لیے جائیں اور انکم ٹیکس کے مقاصد کے لیے جانچ پڑتال کی جائے۔ تاہم، نوٹوں کی تبدیلی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے کیونکہ ایک وقت میں صرف 20000 روپے ہی بدلے جا سکتے ہیں۔
بی جے پی کی اینٹی کرپشن والی امیج دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے اور 2024 تک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسر لفظوں میں کہیں تو، اگر کانگریس کرناٹک میں اچھی جیت درج کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2024 کے انتخابی موسم کی شروعات سے پہلےکرناٹک قومی اپوزیشن کے لیےامکانات کی راہیں کھول سکتا ہے۔
اگرچہ کانگریس زیادہ تر پری پول سروے میں آگے ہے، لیکن اگر ہم ماضی کی انتخابی کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ ووٹ شیئر کے لحاظ سے پیچھے ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس لیڈروں کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر پارٹی بڑے فرق سے نہیں جیتی تو اس کے لیے بی جے پی کے منی پاور کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہیں ہوگا۔
ملیانہ فسادات اور جئے پور بلاسٹ معاملے میں عدالتوں نے ناقص جانچ اور مجرمانہ تفتیشی نظام میں جوابدہی کی کمی کی بات کہی ہے۔ جہاں راجستھان میں اپوزیشن بی جے پی کے ساتھ کانگریس حکومت فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بات کر رہی ہے، وہیں ملیانہ میں یوپی کی بی جے پی حکومت کے ساتھ اپوزیشن نے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں دیا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ کوئی بھی آئین برا ہو سکتا ہے اگر اسےعمل میں لانے والے لوگ برے ہوں۔ ان کا یہ قول اس تناظر میں اور زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ کس طرح آئینی حقوق کوپامال کرنے کے لیےنوکرشاہی اور ٹرائل کورٹ کی سطح پر عام قوانین کااستعمال یا غلط استعمال کیا جارہاہے۔ لوک سبھا سے راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونا اس کی بہترین مثال ہے۔
بجٹ کو خواہ کتنا ہی بڑھا چڑھا کرپیش کیا جائے، نریندر مودی کے نو سال کے اقتدار کی وراثت — مینوفیکچرنگ، نجی سرمایہ کاری اور روزگار میں جمود کی ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک اضافی مسئلہ بن گئی ہے۔
نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے کیسوانند بھارتی کیس کے فیصلے کے قانونی جواز پر سوال اٹھایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ پارلیامنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا خودمختار حق ہونا چاہیے، چاہے یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اصولوں کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔
بی جے پی اپوزیشن پارٹیوں پر جو الزامات لگا کرانہیں خارج کرتی رہتی ہے، ان میں سے کوئی بھی عام آدمی پارٹی پر فٹ نہیں بیٹھتے اور یہی اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘مفت کی ریوڑی’ والے بیان کے بعدجہاں ہر طرح کے ماہرین اقتصادیات سبسڈی کی خوبیوں اور خامیوں کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنےکے لیےمجبور ہو گئے ہیں، وہیں مودی کے لیے اس ایشو کو کھڑا کر پانا ہی ان کی کامیابی ہے۔
بہار میں حالیہ سیاسی پیش رفت 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ملک کی سیاست کو بدلنے کا مادہ رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو بی جے پی کے پاس سات پارٹیوں کے اس مہا گٹھ بندھن کو لے کر فکر مند ہونے کی ہر وجہ ہے۔
آرگنائزڈ سیکٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر معیشت کی ہمہ گیر اور جامع بحالی کا دعویٰ انتہائی گمراہ کن ہے۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون کے تحت 5422 مقدمات درج کیے ہیں، لیکن اب تک صرف 23 افراد کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا ہے- جو کہ 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔
حال ہی میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات نے کئی پرائم ٹائم ٹی وی اینکروں اور بڑے چینلوں کے مدیران کو اس بات پر تبادلہ خیال کے لیے بلایا کہ کیا نیوز چینلوں پر فرقہ واریت اور پولرائزیشن کو فروغ دینے والے مباحث کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وزیر موصوف واضح طور پر غلط جگہ پر علاج کا نسخہ آزما رہے ہیں جبکہ اصل بیماری ان کی ناک کے نیچے ہی ہے۔
مودی حکومت سوچتی ہے کہ وہ زرعی مصنوعات کی عالمی تجارت کو مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکتی ہے اور کسانوں اور تاجروں کو نقصان پہنچائے بغیر راتوں رات اپنے فیصلے کو بدل سکتی ہے۔
ہندوستان کو عالمی معیشت میں کسی بھی اتھل پتھل کی صورت میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ اب وہ تجارت، سرمایہ کاری اور مالیات میں کہیں زیادہ عالمگیر ہو چکا ہے۔ آج یہاں امریکی فیڈرل ریزرو کی کارروائیاں ریزرو بینک آف انڈیا کے مقابلے زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔
روزگار کی شرح یالیبر فورس کی شرکت کا تناسب اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ معیشت میں کتنے روزگار کے اہل لوگ اصل میں نوکری کی تلاش میں ہیں۔سی ایم آئی ای کےمطابق،ہندوستان کے لیبر فورس کی شرکت کا تناسب مارچ 2021 میں41.38 فیصدی تھا (جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے بالکل قریب ہے)لیکن گزشتہ ماہ یہ گر کر 40.15 فیصدی رہ گیا۔
ونود دوا کےچالیس سالہ ٹی وی نیوز کا تجربہ اور ناظرین سے ان کاغیر معمولی رشتہ ان کی پہلی ڈیجیٹل کوشش میں اتنی آسانی سے آ گیا کہ جلد ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر ناظرین کومتوجہ کرلیا۔
امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
وہاٹس ایپ یا فیس بک کے برعکس ایپل متنازعہ نہیں ہے اور مودی حکومت اس کو اعلیٰ پائیدان پر رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اب تک پیگاسس کے استعمال سےانکار کرتی آئی حکومت ہند کے لیے ایپل کے آپریٹنگ سسٹم میں ہوئی دراندازی کے سلسلے میں کمپنی کے نتائج کو مسترد کرنا بہت مشکل ہوگا۔
نوٹ بندی کے غیرمتوقع فیصلے کے ذریعے بات چاہے کالے دھن پر روک لگانے کی ہو، معاشی نظام سے سے نقد کو کم کرنے یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی،اعدادوشمار مودی حکومت کے حق میں نہیں جاتے۔
پیگاسس جاسوسی کا معاملہ ایک طرح سے میڈیا، سول سوسائٹی،عدلیہ،حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن جیسے جمہوری اداروں پر آخری حملے جیسا تھا۔ ایسے میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے کئی لوگوں کو راحت پہنچائی، جو حال کے سالوں میں ایک ان دیکھی بات ہو چکی ہے۔
یوپی میں خواتین کےلیے 40 فیصدی سیٹوں کااعلان کرکے پرینکا گاندھی نے ایک طرح سے یہ صاف کر دیا ہے کہ کانگریس سیٹوں کی ایک بڑی تعداد پرانتخاب لڑےگی۔ یعنی دوسری پارٹیوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ یا اتحاد نہیں کرےگی۔خواتین کو بااختیار بنانےکے داؤ کو اس قدر تشہیر کے ساتھ کھیلنے کا تبھی کوئی تک بنتا ہے، جب آپ انتخابی جدوجہد میں اپنی موجودگی کو کو نمایاں طور پربڑھائیں۔
نریندرمودی سرکار کو موجودہ بحران کےلیےیو پی اے کو مورد الزام ٹھہرانا آسان لگتا ہے،لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ کوئلے کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی پروڈکشن کو بڑھاوا دینے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے۔
مہاماری کےبعد سےمیڈیاصارفین کاایک بڑا طبقہ اخبارات نہیں خرید رہا ہے۔ڈیجیٹل میڈیا سے مقابلےکےباعث اشتہارات کی شرح میں تقریباً40 فیصدی کی کمی آگئی ہے۔ کچھ استثناء کو چھوڑ دیں تو نیوز میڈیاسیکٹر کے تقریباًتمام بڑے نام بحران سے باہر آنے کے لیےجدوجہد کر رہے ہیں۔
بینک فنڈز تک رسائی والےممکنہ چار یا پانچ کارپوریٹ گروپ ہی ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، کوئلہ کانوں، گیس پائپ لائنوں اور بجلی پیداکرنے والےمنصوبوں کی طویل مدتی لیز کے لیے بولی لگائیں گے۔ایسے میں کہنے کے لیے بھلے ہی ملکیت حکومت کے پاس رہے، لیکن یہ عوامی اثاثےکچھ چنندہ کارپوریٹ گروپس کی جھولی میں چلے جائیں گے، جن کی پہلے ہی کسی حد تک اجارہ داری ہے۔
مسلسل اقتصادی ترقی کےکسی بھی دور کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی آتی ہے اور لیبرفورس زراعت سے انڈسٹری اورسروس سیکٹر کی طرف گامزن ہوتا ہے۔حالیہ اعدادوشمار دکھاتے ہیں کہ ملک میں ایک سال میں تقریباً1.3کروڑ مزدور ایسےسیکٹر سے نکل کر کھیتی سے جڑے ہیں۔ عالمی وبا ایک وجہ ہو سکتی ہے،لیکن مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیوں نے اس کی زمین پہلے ہی تیارکردی تھی۔
صحافتی ادارے اپنے وسائل کی وجہ سےمحدود ہوتے ہیں، اس لیے قومی اورعالمی سطحوں پرصرف حقیقی جانچ سے ہی پیگاسس کے استعمال کی صحیح سطح کا پتہ چلےگا۔
جب حکومتیں یہ دکھاوا کرتی ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر ہو رہی غیر قانونی ہیکنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہیں، تب وہ حقیقت میں جمہوریت کی ہیکنگ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے ایک اینٹی وائرس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں مسلسل بولتے رہنا ہوگا اور اپنی آواز سرکاروں کو سنانی ہوگی۔
سماج کےمحروم طبقات کے لیےآمدنی بڑھانے کے سلسلے میں بی جے پی حکومت کےتمام اہم وعدوں کے اب تک ٹھوس نتیجے برآمد نہیں ہوئےہیں۔
بڑےمیڈیا گھرانوں نے نئے میڈیاضابطوں کو‘مبہم اورمن مانا’قرار دیتے ہوئے ٹھیک ہی کیا ہے، لیکن اس کویہ بھی سمجھنا چاہیے کہ روایتی میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور حالیہ وقت میں آئے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز کے بیچ فرق کرنے کی کوششیں بھی قابل دفاع نہیں ہیں۔
مرکز نے اگست سے دسمبر کے بیچ2.2ارب ٹیکے دستیاب کروانے کی بات کہی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے کتنے ملک میں بنیں گے اور کتنے امپورٹ کیے جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ٹیکوں کی موجودہ قلت نومبر 2020 سے جنوری 2021 کے بیچ کمپنیوں کو ویکسین کا پری آرڈر دینے میں مودی سرکار کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ کو کہا ہے کہ اسےصحیح ویکسین پالیسی نافذ کرنے کو لےکرایگزیکٹوکی دانشمندی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی واضح طور پر اعلانیہ قومی ٹیکہ کاری پالیسی ہے ہی نہیں۔