فکر و نظر

وزیر اعظم نریندر مودی بحرانی حالات میں بھی انسانیت کے جذبے سے عاری ہو کر سیاست ہی کرتے ہیں

منی پور میں تشدد  کے حالیہ واقعات پر ان کے بیان میں دوسروں کے رنج والم کے حوالے سے فطری انسانی ردعمل کاواضح فقدان نظر آتا ہے۔

20 جولائی کو مانسون سیشن کی شروعات میں  پارلیامنٹ کے احاطے میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

20 جولائی کو مانسون سیشن کی شروعات میں  پارلیامنٹ کے احاطے میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

پاور پالیٹکس کی ضروریات کے حساب سے ردعمل ظاہر کرنے میں بعض رہنما کتنےسخت ہوتے  ہیں، اور اس سلسلے میں ایک پیٹرن بھی نظر آتا ہے۔چونکہ ہندوستان میں ہر سال کوئی نہ کوئی  اہم اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں، اس لیے اپنے ووٹروں سے مسلسل خطاب کرنے کا رجحان سیاست کی ایک مستقل خصوصیت بن گیا ہے۔

لیکن کچھ المناک حالات اور بحران ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جن پر سوچ سمجھ کر  ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے فطری انسانی ردعمل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ منی پور میں جاری تشدد کے تقریباً 80 دنوں  بعد وزیر اعظم نریندر مودی نےاس  بارے میں اپنی چپی توڑتے ہوئے وہاں کی تین خواتین کی برہنہ پریڈ اور گینگ ریپ کے حوالے سے جو بیان دیا، اس  میں کسی بھی فطری انسانی ردعمل اور جذبے  کا واضح فقدان  نظر آتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ ان  کامجموعی ردعمل ہی بنیادی اخلاقیات سے عاری ہمدردی کا نتیجہ ہو۔ مودی نے ان خواتین کی سرعام  تذلیل اور گینگ ریپ پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، لیکن ان کےپورے بیان کا لب لباب کچھ ایسا تھا جو بنیادی طور پر سیاست کو مخاطب کر رہا تھا۔ کیا صرف اس ایک موقع پر بھی مودی خالصتاً انسانی ردعمل کا اظہار نہیں کر سکتے تھے؟

ان کے بیان میں منی پور کے ساتھ ساتھ راجستھان اور چھتیس گڑھ کے  ذکرسے پتہ چلتا ہے کہ مودی اس سال کے اواخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی امکانات کا اندازہ لگاتے ہوئے بھی منی پور کے  تشدد کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ وزیر اعظم کے کچھ حامی اور بہت سے سیاسی مبصرین نے ان کے بیان میں نظر آنے والی اس رذالت  کی مذمت کی ہے۔ اورکسی  بات کو چھوڑ بھی دیں، تو ان کے  بیان میں  منی پور کے لوگوں کے لیے حساسیت کا شدیدفقدان نظر آتا ہے۔

یقینی طور پرایک بار کومنی پور کی خواہش ہوگی کہ  وزیر اعظم صرف اس کے لیے انسانی ردعمل کا اظہار کریں۔ اوران کی یہ خواہش  بھی ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم  ان کیمپوں کا دورہ کریں، جہاں 60000 سے زیادہ بے گھراور بے بس  لوگ رہنے کو مجبور ہیں۔

کالم نگار تولین سنگھ نے انڈین ایکسپریس میں اپنے اتوار کے کالم میں اس بات پرحیرت کا اظہار کیا ہے کہ مودی ایسے واقعات پر بروقت ردعمل کیوں ظاہر کر پاتے ہیں اور ایسی کون سی چیزہے جو  انہیں منفی اور ناسازگار حالات میں طویل عرصے تک خاموش رہنے کو مجبور کرتی ہے۔ انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح وزیر اعظم نے 2015 میں گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں اتر پردیش کے دادری میں محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ کر مار دیےجانے کے واقعہ پر کبھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ اس طرح کا پہلا واقعہ تھا، جس کے بعد پورے شمالی ہندوستان میں اس طرح کی ماب لنچنگ کا سلسلہ شروع ہو ا۔

تبھی سے، مودی نے واضح طور پر اُن واقعات پر خاموشی اختیار کرنے کی اپنی فطرت کو ظاہر کیا ہے، جن سے ان کی شبیہ یا ان کی سیاست پر منفی اثر پر سکتا ہے۔ یقیناً، ان کے کٹر حامیوں کے لیے بھی ان کی خاموشی کا کچھ معنی مطلب ہوتا ہوگا۔

مثال کے طور پر، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کا حالیہ بیان کہ ریاست میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کے لیے مسلم سبزی فروش ذمہ دار ہیں، ایک ایسا ہی  بیان ہے، جس پر مودی خاموش رہنے کو ترجیح دیں گے، حالانکہ یہ ان کے اور ان کی پارٹی کے بار بار دہرائے جانے والے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کے بالکل برعکس ہے۔ اس لیے مودی کا خاموش رہنا پاور پالیٹکس کی ضروریات کے لحاظ سے تو  درست ہے ہی ، ساتھ ہی منی پور جیسے معاملے میں بھی کام آ جاتا ہے۔ لیکن اس عمل میں جو چیز ضائع ہو جاتی ہے وہ ہے انسانیت، اس سے جڑے انسانی جذبات، جو لیڈروں میں  فطری طور پر ہونا چاہیے۔

مثال کے طور پر، 2012 کے دہلی ریپ کیس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے جس طرح سے نربھیا کے اہل خانہ سے شخصی طور  پر بات چیت کی، اس میں ایسی  انسانیت دیکھنے کو ملی تھی۔ اس کے بعد راہل گاندھی متاثرہ کے خاندان سے مسلسل رابطے میں رہے۔ کچھ عرصہ قبل نربھیا کے والد نے خود ہی بتایا تھا کہ راہل نے ان کے بیٹے کو گریجویشن کروانے اور پائلٹ بننے میں مدد کی تھی۔ آپ اسےخالص سیاسی ردعمل کے برعکس شخصی  انسانی ردعمل کہہ سکتے ہیں۔

جب تولین سنگھ نے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم سے پوچھا  تھاکہ وہ محمد اخلاق جیسے المناک قتل  معاملوں پر عوامی بیانات کیوں نہیں دیتے، تو ان کا جواب تھا کہ اگر وہ ایسا کرنے لگے تو وہ ایسے واقعات پر ردعمل ہی دیتے رہ جائیں گے۔ یہ واضح طور پر کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے، کیونکہ یہ اکثریتی ہجوم کے ہاتھوں لنچنگ، اقلیتوں کے خلاف اپنے ہی وزراء کی جانب سے  بار بار دیے جانے والے بیانات، چین کا سرحدوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ، جنسی زیادتی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے والی خواتین پہلوانوں کی تحریک یا منی پورکا تشدد، جس سے ریاست کے تانے بانے کو  خطرہ لاحق ہے، اور دوسرے متنوع مسائل پر ان کی سوچی سمجھی  خاموشی کی وضاحت نہیں کرتا ہے ۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ جہاں وزیر اعظم کو سلگتے ہوئے مسائل پر عوامی طور پر پر بولنے کا وقت نہیں ملتا، وہیں وہ اپنی امیج چمکانے والےپروگراموں پر بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کرتے، چاہے وہ نئی پارلیامنٹ میں سینگول کی تقریب ہو یا غیر ملکی سرزمین پر تارکین وطن سے خطاب۔ ان پروگراموں کا کیلنڈر بھی نہیں بدلتا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خالص انسانی سطح پر دیکھیں تو اس طرزِ عمل میں بنیادی طور پر کچھ نقص نظر آتا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)