ایک خوفناک دور سے گزر رہی ہے ہندوستان کی جمہوریت
ملک میں ایک لمبی اور مشکل لڑائی کے بعد حاصل کئے گئے جمہوری حقوق خطرے میں ہیں کیونکہ حکمراں پارٹی کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
ملک میں ایک لمبی اور مشکل لڑائی کے بعد حاصل کئے گئے جمہوری حقوق خطرے میں ہیں کیونکہ حکمراں پارٹی کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
کو رونا وائرس کے مدنظر ہوئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران راجستھان میں رہ رہے پاکستانی ہندو پناہ گزینوں کی خبرلینے والا کوئی نہیں ہے۔ریاستی حکومت نے امداد مہیا کرانے کے احکامات دیے ہیں، لیکن اب تک تمام پناہ گزینوں تک مدد نہیں پہنچی ہے۔
معروف ہندوستانی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارن دھتی رائے نے الزام لگایا ہے کہ ملکی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
گرفتار کیے گئے لوگوں میں کتنے مسلمان ہیں اور کتنے غیر مسلم اس کے متعلق کوئی واضح اعداد و شمار نہیں ہے لیکن جانکاروں کا ماننا ہے کہ ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مقامی لوگوں نے بھی اسی طرح کے الزا مات عائد کیے ہیں ۔
نارتھ -ایسٹ دہلی میں ہوئے فسادات کو لے کر پولیس پر اٹھ رہے سوالوں کو لے کر دی وائر نے آر ٹی آئی کے تحت کئی درخواست دائر کر کے اس دوران پولیس کے ذریعے لیے گئے فیصلے اور ان کی کارروائی کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔
امریکی تاریخ سے متعلق ایک صفحہ بتاتا ہے کہ میڈیا اور دانشوروں کے ایک طبقہ کے ذریعےحمایت یافتہ نسل پرستی اورفرقہ واریت کا زہر طویل عرصے سے سیاست کا کھاد پانی ہے۔
ملک میں بڑھتے کو روناانفیکشن کے معاملوں کے بیچ مرکزی حکومت نے آروگیہ سیتو موبائل ایپ لانچ کیا ہے، جس کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کووڈ 19 خلاف لڑائی میں ایک اہم قدم بتایا ہے۔ حالانکہ ایپ کی صلاحیت کو لے کر ماہرین کی رائے سرکار کے دعووں کے برعکس ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ میراہندوستان برباد ہو رہا ہے، میں آپ کو اس طرح کے خوفناک لمحے میں ایک امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ آج بڑے پیمانے پر تشدد کو بڑھاوا مل رہا ہے اور لفظوں کے مطلب بدل دیے گئے ہیں ،جہاں ملک کو تباہ کر نے والے محب وطن بن جاتے ہیں اور عوام کی بے لوث خدمت کرنے والے غدار۔
سابق ہیلتھ سکریٹری کےسجاتا راؤ نے کہا ہے کہ غذائی قلت اور صحت مند طرز زندگی کے فقدان کی وجہ سے کافی تعداد میں لوگوں کے اندر بیماری سے لڑنے کی طاقت کم ہے۔ ایسے میں بیماریوں کو لےکرمستقل تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کی ہمارے ملک میں کافی کمی ہے۔
اگر وزیراعظم نریندر مودی کو لگتا ہے کہ ہندوستان باقی ممالک کی طرح لگاتار چل رہے ایک مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بڑا اقتصادی پیکج نہیں دے سکتا تو انہیں لازمی طور پر لاک ڈاؤن میں چھوٹ دینے کے بارے میں سوچ سمجھ کر اگلا قدم اٹھانا چاہیے۔
پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت کے کئی فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کو عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا پسند ہے۔ نوٹ بندی میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پرانے نوٹوں کو بدلنا ہو، شہریت ثابت کرنے کے لئے کاغذ اکٹھا کرنا ہو یا اچانک ہوئے لاک ڈاؤن میں انہونی کے ڈر سے ہجرت اورحکومت کے فیصلوں کی مار سماج میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے پر ہی پڑی ہے۔
مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی کے لئے مہم چلائیں اور جو بھی لائحہ عمل طئے کیا جائے اس پر عمل کرنے کے لئے عوام کو آمادہ کیا جائے۔آپسی اختلافات کو کچھ وقت کے لئے بالائے طاق رکھتے ہوئےملت کے وسیع تر مفاد کی خاطر اتحاد کا مظاہرہ کریں۔عوام کو تذبذب میں ڈالنے کے بجائے ان میں صرف ایک ہی بات جائے، ایسی بات جو سائنسی و طبی حوالے سے مستند اور قابل عمل ہو۔
کورونا بحران کے دوران ملک اور بیرون ملک سے خواتین کے خلاف بڑھتے گھریلو تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ کورونا کے بڑھتے معاملوں کے درمیان گھر میں بند رہنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ ٹی وی پر آ رہی ہدایتوں میں گھریلو تشدد پر بیداری کا پیغام ندارد ہے۔ خواتین پر پڑے کام کے بوجھ کو بھی لطیفوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔
تین سالوں میں وزارت صحت نے وبائی امراض سے متعلق قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے صلاح ومشورہ کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کو پارلیامنٹ میں لانے کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، جہاں اسکو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر غور و خوض کیا جاسکتا تھا۔ جہاں حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتی طبقہ کو زچ کرنا، اکثریتی فرقہ کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے نیشنل ازم کا راگ الا پ کر ووٹ بٹورناہووہاں صحت سے متعلق قانون سازی کی کس کو فکر ہوتی۔
مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگکر رہے ہیں۔ اس ایک احمقانہ حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کےخلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔
ویڈیو: جنوری میں چین کے سائنسدانوں نے کو رونا وائرس کے لیے ٹیکے کی تیاری کے مدنظردنیا بھر کے سائنسدانوں کو اس کا ایک جینیاتی کوڈ جاری کیا تھا۔نیوز ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے ہانگ کانگ، بیلجیم اور جرمنی کے سائنسدانوں سے بات کی، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کے ٹیکہ بنانے کا سفر کہاں تک پہنچا ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جگہ جگہ پھنسے مہاجر مزدوروں کے لئے حکومت کے ذریعے بسیں چلانے کے بعد نوئیڈا، فریدآباد، گڑگاؤں وغیرہ جگہوں پر کام کرنے والے نیپالی مزدوربھی اپنے ملک کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ سونولی تک تو پہنچ گئے لیکن دونوں طرف کی سرحدبند ہونے کی وجہ سے 326 نیپالی شہری ہندوستان کی طرف پھنسے ہوئے ہیں۔
ہریانہ کے پانی پت میں رہ رہے کئی مہاجر مزدوروں نے شکایت کی ہے کہ یا تو انتظامیہ انہیں کھانا مہیا نہیں کرا رہا ہے اور اگر کہیں پر کھانا پہنچ بھی رہا ہے تو وہ بے حد خراب ہے۔
جس وقت حکومت کی ترجیحات میں اسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔
معاملہ بہار کے بھوج پور ضلع کے آرا کا ہے۔ مسہر کمیونٹی سے آنے والے آٹھ سالہ راکیش کی موت 26 مارچ کو ہو گئی تھی۔ ان کی ماں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے شوہرکی مزدوری کا کام بند تھا، جس کی وجہ سے 24 مارچ کے بعد ان کے گھر کھانا نہیں بنا تھا۔
ہریانہ کے پانی پت ضلع کے مہاجر بنکروں، رکشہ ڈرائیوروں سمیت ہزاروں یومیہ مزدوروں کو راشن نہیں مل پارہا ہے۔ اس میں سے کئی لوگ اپنے گاؤں واپس لوٹ رہے تھے، لیکن انتظامیہ نے ان کو یہ یقین دلا کر روکا ہے کہ ان کو کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائے گی۔
خصوصی رپورٹ : کورونا وائرس سے نپٹنے میں معاشی مدد دینے کے لئے مرکز نے ‘پی ایم کیئرفنڈ’ کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ اس کے جیسا ہی پہلے سے موجود پرائم منسٹر ریلیف فنڈ میں حاصل رقم کا کافی کم حصہ خرچ کیا جا رہا ہے اور 2019 کے آخر تک میں اس میں3800 کروڑ روپے کا فنڈ بچا تھا۔
25 مارچ کو اشیائےخوردنی کے مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بتایا کہ اشیائےخوردنی تحفظ قانون کے تحت اب پی ڈی ایس ہولڈرز کو 2 کلو اضافی اناج ملےگا، جس سے ملک کے 81 کروڑ مستفید اگلے تین مہینے تک مستفیض ہوںگے۔ 26 مارچ کے وزیر خزانہ کے اعلان میں مستفید کی تعداد 80 کروڑ ہے۔ ایک کروڑ کا حساب کیا حکومت کے بولنے-لکھنے میں غائب ہو گیا؟
جب حکومت کورونا وائرس کاسامناکرنے کے لئے معاشی سرگرمیاں بند کردے گی ، تب معلوم ہو گا کہ اس سے بے روزگاری میں اور اضافہ ہوگا ،ساتھ ہی لوگوں کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ا س صورتحال میں ، ملک کے یومیہ مزدوروں اوراپنے روزگار میں لگےافراد کے لئے آمدنی کا ٹرانسفر حکومت کی ترجیحاٹ میں ہونی چاہیے۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے کورونا وائرس کی جانچ کے لئے پرائیویٹ لیب اور نان-یو ایس ایف ڈی اے / یوروپین سی ای کٹ کو منظوری دینے کا کام تیز کر دیاہے۔ کونسل نے اب تک اس طرح کے کل تین کٹ کو منظوری دی ہے، جس میں ‘ مائی لیب’ نام کی ایک ہندوستانی کمپنی شامل ہے۔
ویسے یہ کام برٹن نے ایک ہفتہ پہلے کر لیا تھا۔ قانون ہی بنا دیا کہ تین مہینے تک نہ تو کرایہ بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو نکالا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سہی ہے کہ مکان مالک اپنی ای ایم آئی کیسے دےگا تو انہیں بھی قسط چکانے سے تین مہینے کی چھوٹ دی گئی ہے۔ ہندوستان بھی اس طرز پر کوئی قدم اٹھا سکتا ہے۔
اِن علماء نے نہ صرف اُمت کو گمراہ کرنے کا کام کیا بلکہ ایسے بیانات اور اقدامات کی وجہ سے اسلاموفوبیا کی آگ کو مزید ایندھن بھی فراہم کیا ہے۔دائیں بازومیڈیا نے اس کو “کورونا وائرس جہاد”قرار دیا اور ہندوستان میں صحت عامہ کے بحران کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔
ہندوستان ایک ثقافتی اکائی ہے۔ باوجود مختلف زبانوں، ملبوسات اور کھان پان کے ہم سب حماقت کے ایک دھاگے میں بندھے ہیں۔ قومی یکجہتی کا یہ مظاہرہ اور ثبوت دل کو تسلی دیتا ہے۔
ہندوستان میں میڈیا اور حکومتی حلقے اعتراف کرتے ہیں کہ کیرالہ صوبہ کی بائیں بازو اتحاد حکومت نے قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ کر بغیر خوف و ہراس پھیلائے خاصی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 27 فروری کو ہدایات جاری کر کےتمام ممالک سے کہا تھا کہ وہ اس وبا سے لڑنے کے لئے اپنے یہاں بھاری مقدار میں حفظان صحت کے آلات کا اسٹاک اکٹھا کر لیں۔ حالانکہ اس کے باوجود ہندوستان نےماسک، دستانے، وینٹی لیٹر جیسے ضروری آلات کی ایکسپورٹ جاری رکھی۔
اس وقت جب یہ لکھ رہا ہوں بہار کے دربھنگہ میڈیکل کالج سے خبر آ رہی ہے کہ وہاں کے ڈاکٹروں نے کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ان کے پاس ضروری داستانے اور ماسک نہیں ہیں۔ بھاگلپور میڈیکل کالج اور پٹنہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اور میڈیکل طلبا کے ہوش اڑے ہیں کہ بغیر آلات کے کیسے مریض کے قریب جا ئیں گے۔ سرکار جان بوجھ کر انہیں موت کے منھ میں کیسے دھکیل سکتی ہے؟
کوروناوائرس : دو مہینے سے پوری دنیا میں کو رونا کو لےکر دہشت کا ماحول ہے۔ سرکاریں دن رات جاگ رہی ہیں لیکن اس کے بعد بھی بہار میں اس کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ مریض ہاسپٹل میں مر گیا۔ اس کی لاش لےکر گھر کے لوگ چلے گئے اور اس کے کئی گھنٹے بعد پٹنہ میں بتایا جاتا ہے کہ جو مرا ہے اس کی رپورٹ کو رونا پازیٹو ہے۔ بہار کے چیف سکریٹری نے ہی بولا ہے کہ اس مریض کے مر جانے کے بعد جانچ رپورٹ آئی ہے۔
اتر پردیش کے الہ آباد شہر کے روشن باغ میں شہریت قانون، این آر سی اوراین پی آر کے خلاف گزشتہ 12 جنوری سے لگاتار مظاہرہ چل رہا ہے، جس میں خواتین بڑی تعداد میں حصہ لے رہی ہیں۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا ڈین کونٹز کے ناول میں کی گئی پیشن گوئی میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ووہان-400 وائرس چین کی ایجاد ہے۔ کیا معروف فنکار امیتابھ بچن نے کورونا طائرس کی وجہ سے ’سیلف کوارنٹائن‘ کر لیا ہے جس کی اطلاع انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر دی تھی؟ کیا پنجاب میں پولیس اور ڈاکٹروں کی ٹیم بیرونی ملک سے آئے شحص کو زبردستی ہسپتال بھیج دیا؟ کیا ڈبلیوایچ او نے حکومت ہند کو دو مہینے لاک ڈاؤن کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ کیا حکومت نے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ رات میں گھروں کے اندر رہیں کیوں کہ کورونا وائرس کو ختم کرنے کے لئے رات میں آسمان سے کیمیائی بارش کی جائےگی؟
مرگ انبوہ-آج کا ناول اس لیے ہے کہ اس میں ہم ایک تبدیل ہوتے ہوئے بھارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لنچنگ اور شہریت ترمیم قانون تو بس ایک بہانہ ہے ، نسلوں کا صفایا اصل نشانہ ہے ۔کیا موت کے یہ فرمان ، یہ فارم،این پی آر ،این آر سی اور سی اے اے کے ہی فارم نہیں ہیں ؟
جو حکومت ہمیں خود کا خیال رکھنے کی صلاح بھر دے سکتی ہے، وہ ہمیں اس وباسے کتنا بچا سکتی ہے؟
دی وائر سے بات چیت میں دینک بھاسکر کی طرف سے کہا گیا، ہم اپنے فری لانس صحافی سدھارتھ راج ہنس کے دھوکےکا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہم سے جعل سازی کی ہے۔ہم ان کے خلاف قانونی قدم اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی فن لینڈ کے وزیر اعظم دفتر اورسفارت خانہ کو معافی نامہ بھی بھیج رہے ہیں۔
کو رونا وائرس کو لےکرملک کے نام خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی عوام سے تعاون کی اپیل ہی کرتے رہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آخر وائرس کے ٹیسٹ، علاج اور متاثرین کا پتہ لگانے کےچیلنج سے نپٹنے کے لیے ان کی سرکار کاکیامنصوبہ ہے۔
سابق سی جے آئی رنجن گگوئی کو صدر رام ناتھ کووند کے ذریعے راجیہ سبھا ممبر نامزدکئے جانے سے پہلے گزشتہ جنوری میں صدر نے ان کے بھائی ریٹائرڈائیرمارشل انجن گگوئی کونارتھ ایسٹرن کاؤنسل کا کل وقتی ممبر نامزد کیاتھا، جبکہ انہوں نے اس شعبے میں زیادہ عرصے تک کام نہیں کیا ہے۔
ویڈیو: ہندوستان میں کورونا وائرس سے اب تک 166 لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور 3 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔اس وائرس سے دنیا بھرمیں دو لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور 7900 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔کورونا وائرس کے اثرات پر جے این یو کے پروفیسر ڈاکٹر وکاس باجپئی اور سینئر سحافی براج سوین کے ساتھ سینئر صحافی ارملیش کی بات چیت۔