مودی سیاست میں اتنے ایماندار ہیں کہ وہ اپنی ’عیاری‘ کو بھی نہیں چھپاتے…
اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایک ٹی وی اسکرین کے سامنے ایک ضعیفہ کھڑی ہوکر رو رہی ہے اور اسکرین پاکستانی پرائم منسٹر عمران خان کی تصویر نظر آ رہی ہے۔اس تصویر کو اس دعوے کے ساتھ شئیر کیا گیا کہ ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کی ماں بیٹے کی رہائی کے لئے عمران خان سے رو رو کر فریاد کر رہی ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے ‘پائلٹ پروجیکٹ’والا بیان دےکر ثابت کیا ہے کہ نفرت سے بنائے گئے رویے کا گھٹیاپن کسی بھی لمحے کی سنجیدگی اور کسی عہدے کے وقار سےمشروط نہیں ہوتا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہند وپاک کے بیچ جاری کشیدگی کے کم ہونے کی امید ہے اور جلد ہی ’اچھی خبر‘ آنے والی ہے۔
شاید ہی کسی غیر ملکی سربراہ نے کبھی کسی ہندوستانی وزیر اعظم کی اس طرح اعلانیہ بے عزتی کی ہو۔ مودی نے سبکی کا یہ گھونٹ خاموشی سے پی لیا۔ وزارت خارجہ کو بھی بتایا گیا کہ آن ریکارڈ ٹرمپ کے بیان کا جواب نہیں دیا جائے۔ صرف آف ریکارڈ ہی میڈیا میں افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات بتائی جائیں۔
ہندوستان کے زیادہ تر صحافی آزاد نہیں ہیں بلکہ مالک کے انگوٹھے کے نیچے دبے ہیں۔ وہ مالک، جو سیاستدانوں کے سامنے سجدے میں رہتا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران سی این این کے صحافی کے سوال پوچھنے پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ جواب دینے کے بجائے بدتمیزی کرتے نظر آئے ۔ اس پورے معاملے کو سی این این نے جمہوریت کے لیے خطرہ بتایا ہے۔
مدیر کی حیثیت سے جمال خاشقجی نے ایسی تحریریں شائع کیں جو سعودی حکام کی قدامت پسند سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔مگر ان کی اسی انقلابی سوچ کی وجہ سے مغرب میں ان کے بہت سارے مداح پیدا ہو گئے جو انھیں ایک آزاد خیال اور ترقی پسند صحافی کے طور پر دیکھنے لگے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اخبارات نے آپسی تال میل کے ساتھ یہ قدم اٹھایا ۔حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو عوام کا دشمن اور پوزیشن پارٹی کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
8 مئی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے تہران کے ساتھ ہوئے نیوکلیائی معاہدے سے امریکہ کے ہٹنے کے اعلان کے بعد سلامتی کونسل کی یہ پہلی میٹنگ تھی۔