ایک تحریک عدم اعتماد کی کہانی
ہندوستان میں واجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ہندوستان میں واجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
الیکشن کےقصے: الیکشن کا موسم قریب آتے ہی بزرگ کئی ایسے پرانے قصے سناتے ہیں، جو جمہوریت کے اس تہوار پرتیر ونشتر کی طرح لگتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک باربھارتیندو ہریش چندر جب بستی پہنچے، توبولے–بستی کو بستی کہوں تو کاکو کہوں اجاڑ! ہرریا قصبے میں بالو شاہی کھائی تو یہ پوچھنے سےباز نہیں آئے کہ اس میں کتنا بالو ہے،وہ کتنی شاہی ہے۔
شہریت قانون کو لےکر 2003 اور اس کے بعد ہوئی بحث میں نہ صرف کانگریس اور لیفٹ بلکہ بی جے پی رہنماؤں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی نے بھی مذہبی طورپر مظلوم پناہ گزینوں کو لےکرمذہب کی بنیاد پر جانبداری نہ کرنے کی پیروی کی تھی۔
اٹل بہاری واجپائی کے تئیں بہتر خراج عقیدت یہی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم افرادکو مزیدآگ کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لئے امن کی راہیں ہموار کی جائیں اور دیرینہ تنازعات کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے۔
1984کے راجیو گاندھی اور 1993 کے نرسمہا راؤ کی طرح واجپائی تاریخ میں ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر بھی یاد کیے جائیں گے ،جنہوں نے سبق کو رواداری کا پڑھایا ،مگر بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
الیکشن کےقصے:دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کا مقصد کسی بھی طرح انتخاب جیتنا نہیں ہے۔ باجوریا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ راشٹرپتی کے انتخاب سے لے کر مقامی سطح کے انتخابات تک میں 278 بارمقدر آزما چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میں کاغذات نامکمل ہونے کی بنا پر وہ میدان سے باہر ہو گئے۔ انتخاب لڑنے کے ان کے شوق کا یہ عالم ہے کہ شورش زدہ کشمیر تک سے وہ خم ٹھوک چکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ضمانت ضبط کرانے کا نایاب تمغہ بھی انہیں کے پاس ہے۔
اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
بی جے پی کے بانی نے مخالفین کو اینٹی نیشنل کہنے پر اعتراض کیا ہے، جو مودی-شاہ کی حکمت عملی اور مہم کا اہم حصہ رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ لال کرشن اڈوانی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ایمرجنسی کے وقت جیل میں بند ہونے کے دوران بھی لکھا تھا۔
الیکشن کےقصے:1957 کے لوک سبھا انتخاب میں متھرا سے کانگریس اور جن سنگھ کے امیدواروں کو شکست دیتے ہوئے آزادانہ طورپر لڑے راجا مہیندر پرتاپ سنگھ نے جیت حاصل کی تھی ۔ اٹل بہاری واجپائی اتر پردیش میں لکھنؤ، بلرام پور اور متھرا سیٹ سے انتخاب لڑے تھے اور بلرام پور سے جیتکر لوک سبھا پہنچے تھے۔
آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کا محدود عالمی نقطہ نظر ہندوستان کے لئے بحران پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ملک ہمارے معماروں نہرو، گاندھی کے خیالات اور آئین کی بنیاد پر کھڑا ہے۔
ہندوستان کی عوام نے دلائی لاما سے محبت کی اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا؛ بدلے میں یہی انہوں نے ہندوستانی عوام کو لوٹایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی حالیہ حکومتوں نے، چین کے خوف سے انہیں لے کر محتاط رویہ اپنایا۔ جبکہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے وویکانند انٹر نیشنل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر شائع اجیت ڈوبھال کے انٹرویو کا اسکرین شاٹ شیئر کیا ہے ۔ اس میں ڈوبھال کہہ رہے ہیں کہ مسعود اظہر کو آئی ای ای ڈی بم بنانا نہیں آتا تھا ، نشانہ لگانا نہیں آتا تھا اور اس کی رہائی کے بعد سیاحت میں 200 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’ابھینو چنڈی دُرگا‘ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
عام مغالطہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جارج فرنانڈیز این ڈی اے سے چپکے رہے؛ لیکن اس معاملے میں اندرا گاندھی والی کانگریس سے ان کی دائمی مخاصمت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔
ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
آج کے ہندوستان میں شاید ہی کوئی تصور کرسکے کہ کونکنی بولنے والا جنوب کا ایک عیسائی اس حد تک سیاست پر اثر انداز ہوسکے کہ وہ بمبئی میں طاقتور کانگریسی لیڈروں کا تختہ پلٹ دے اور پھر آٹھ بار مسلسل بہار جیسے صوبہ سے لوک سبھا کی نمائندگی کرے۔
میں خود کو کافی خوش قسمت مانتی ہوں کہ میں نے اٹل بہاری واجپائی جیسے کرشمائی رہنما کے ساتھ کام کیا ہے اور موجودہ وقت میں نریندر مودی کی قیادت میں کام کر رہی ہوں اور جس دن پردھان سیوک سنیاس لے لیںگے، میں بھی اسی دن سیاست کو الوداع کہہ دوںگی۔
بتایا جا رہا ہے کہ پرینکا نے ایک کتاب اور مکمل کر لی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی اور سیاست سے متعلق اس کتاب کا عنوان فی الحال Against Outrage دیا گیا ہے۔
میڈیا اور عوام میں پیوش گوئل کے بیان کو غلط طریقے سے سمجھا گیا اور ‘رعایت’ کو ‘برأت’ سمجھ لیا گیا ! اسی غلط فہمی میں بی جے پی کے رہنما اپنی پارٹی اور مودی حکومت کو شاباشی دینے لگے۔
مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے مطالبہ کیا ہے کہ ایودھیا میں متنازعہ زمین کے آس پاس 67 ایکڑ غیر متنازعہ زمین ہے اس سے عدالت پہلے والی صورت حال کو ہٹالے اور یہ زمین اس کے مالکوں کو واپس کردے۔
طویل عرصے سے علیل جارج فرنانڈیز نے اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ۔ وہ ہندی، انگریزی، تمل، مراٹھی اور اردو سمیت 10 زبانوں سے واقف تھے۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔
سال 2018گزرچکا ہے اور ہم ایک نئے سال میں داخل ہورہے ہیں۔گزشتہ ایک سال میں دی وائر اردو نے 2ہزار 600سے زائد اسٹوریز شائع کی ۔ان تما م اسٹوریز کو آپ کے سامنے پھر سے پیش کرنا محال ہےلیکن یہاں 12 ایسی اسٹوریز جو کہ دی وائر اردو ٹیم کو پسند آئیں وہ مع اقتباسات قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہیں ۔ہماری ٹیم کی طرف سے آپ کو نئے سال کی مبارباد۔
بی جے پی کے سامنے آگےکنواں-پیچھے کھائی والی حالت ہے اور دونوں پارٹیوں کے واضح رخ پر بی جے پی کی خاموشی اس کا ثبوت ہے۔
اسپیشل رپورٹ : چھتیس گڑھ کی ان 18 اسمبلی سیٹوں کی ریاضی، جن پر پہلے مرحلے میں 12 نومبر کو ووٹنگ ہونے والے ہیں۔
اینٹی نیشنل، ہندوستان مخالف جیسے لفظ ایمرجنسی کے حکمرانوں کی فرہنگ کا حصہ تھے۔ آج کوئی اور اقتدار میں ہے اور اپنے ناقدین کو ملک کا دشمن بتاتے ہوئے اسی زبان کا استعمال کر رہا ہے۔
’اگر آپ ایک رہنما ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی بچا پانے میں ناکام رہنے کی جوابدہی سے مکر نہیں سکتے۔ ‘
اگر کانگریس پارٹی نرسمہا راؤ کو بھی عزت بخشتی تو شاید نرسمہا راؤ کی وراثت کانگریس کو فائدہ پہنچا سکتی تھی؟
اٹل بہاری واجپائی کی بھتیجی اور کانگریس لیڈر کرونا شکلا نے کہا کہ اٹل کے آخری سفر میں 5کیلومیٹر چلنے کے بجائے اگر نریندر مودی ان کے دکھائے گئے راستے پر چلیں تو ملک کے لیے اچھا ہوگا۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سیلاب کی تباہی کی میڈیا کوریج اور اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت کے بارے میں سینئر صحافی پورنیما جوشی اور جنتا کا رپورٹر کے مدیر رفعت جاوید سےارملیش کی بات چیت۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
نریندر مودی سے الگ وہ اپنے خلاف لکھنے والے یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ذریعے تعمیرکی گئی ان کی عالمی شناخت سے اتفاق نہ رکھنے والے صحافیوں کے متعلق بھی خاکساری اور نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے۔
سوامی اگنیویش پر یہ حملہ دہلی میں بی جے پی دفتر کے نزدیک ہوا۔ گزشتہ مہینے جھارکھنڈ میں ان پر حملہ ہوا تھا۔