بی جے پی ترجمان سوپنل بروآ نے کہا کہ اقتصادی وجوہات سے بنگلہ دیشی ہندوستان نہیں آ رہے ہیں۔ یورپ اور سرحدی ملکوں میں ان کو کم سے کم 3000 روپے روز ملتے ہیں جبکہ ہندوستان میں وہ زیادہ سے زیادہ ہزار روپے ہی کما سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہاں کیوں آئیںگے۔
این آر سی میں شامل نہیں کئے گئے 40.70 لاکھ لوگوں میں سے اب تک 14.28 لاکھ لوگوں نے ہی اتھارٹی کے یہاں دعوے اور اعتراضات داخل کیے ہیں۔ جس کی چھان بین کی آخری تاریخ 15فروری، 2019 ہوگی۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے پہلے سے قابل قبول 10دستاویزوں کے علاوہ 5 اور ایسے دستاویزوں کو قبول کرنے کے اجازت دی ہے جن کو این آر سی کوآرڈینٹر نےشہریت کی تصدیق میں سختی کے مد نظر قبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔
حکومت ہند غیر قانونی روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں ریاستوں سے جٹائے گئے بایوگرافک اعداد و شمار کو میانمار حکومت کے ساتھ شیئر کرےگی۔ اس کی بنیاد پر ان کی شہریت کی تصدیق کی جا سکےگی۔
سپریم کورٹ نے آسام میں غیر قانونی طور پر آئے 7 روہنگیاؤں کو ان کے ملک میانمار بھیجنے کے حکومت کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔
آسام این آر سی کے مسودے سے چھوٹ گئے قریب 40لاکھ لوگوں کے دعوے اور اعتراض حاصل کرنے کی کارروائی 25ستمبر سے شروع ہوگی اور یہ اگلے 60دن تک چلے گی۔
اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں دلتوں ،مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کو بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے بائیکاٹ کاسامنا کرنا پڑا ہے۔
30 جولائی کو این آر سی کا آخری مسودہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب ووٹر لسٹ سے نام ہٹنا نہیں ہے۔
عدالت نے این آر سی کے ڈرافٹ پر دعویٰ اور اعتراض کی آخری تاریخ (30 اگست ) کو ملتوی کر دیا ہے۔ کورٹ نے دعوٰی و اعتراضات کے متعلق مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے Standard Operating Procedure ( ایس او پی ) کے تضاد کو لیکر بھی سوال کیا ہے۔
بی جے پی صدر امت شاہ کے علاوہ پارٹی کے کئی لیڈر آسام میں این آر سی کی آخری فہرست آنے سے پہلے ہی 40 لاکھ لوگوں کو گھس پیٹھیا بتا چکے ہیں۔
مودی کی حکومت 1955کے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیامنٹ میں پیش کرچکی ہے۔جس کی رو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔
کورٹ نے این آر سی ، آسام کے کو آرڈینٹر پرتیک ہجیلا کو کہا کہ آپ کا کام صرف این آر سی بنانا تھا نہ کہ پریس میں جانا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہجیلا کے بیان کا از خود نوٹس لے کر شنوائی شروع ہوئی ہے۔
آسام میں این آر سی کے مکمل مسودہ کی اشاعت کے بعد میگھالیہ نے ریاست میں آنے والے لوگوں کی کڑی جانچ شروع کر دی ہے۔
آسام کی پہلی وزیر اعلیٰ سیدہ تیمور گزشتہ کچھ سالوں سے آسٹریلیا میں رہ رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ ان کا نام فہرست میں نہیں ہے۔
آسام ملک کی واحد ریاست ہے، جہاں این آر سی بنایا جا رہا ہے۔ این آر سی کیا ہے؟ آسام میں ہی اس کو کیوں نافذ کیا گیا ہے اور اس کو لےکر تنازعہ کیوں ہے؟
ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب کسی بی جے پی ایم ایل کا اشتعال انگیز بیان سامنے آیا ہے۔راجا سنگھ سے پہلے ہی مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی سرکار آتی ہے تو آسام کی طرح ہی بنگال میں بھی این آر سی کو نافذ کریں گے۔
این آر سی کو لےکر حزب مخالف بی جے پی حکومت پر حملہ آور ہے۔ ممتا بنرجی نے پوچھا، جن 40 لاکھ لوگوں کے نام رجسٹر میں نہیں ہیں وہ کہاں جائیںگے؟ کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کے لئے کوئی بازآبادکاری پروگرام ہے؟
وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے سوموار کو کہا کہ جو لوگ National Register of Citizens (این آر سی) کے مسودہ کا حصہ نہیں ہیں، وہ اپنےآپ ہی غیر ملکی نہیں ہو جائیںگے۔ ایسے لوگوں کو اپنا دعویٰ پیش کرنے اور اعتراض درج کرانے کے لئے ایک مہینے کا وقت ملےگا۔
30 جون کو سونپا جانا تھامسودہ لیکن ریاست میں سیلاب کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ کورٹ نے 30 جولائی تک مدت بڑھادی ہے۔