حا ل میں جماعت پر جو پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ایک گراؤنڈ ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے ! دراصل ملک بھر میں شہری نکسل واد کے نام پر جو کارروائی کی گئی اسی کا اعادہ اب جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دفعہ 35 اے پر 25 فروری کو شنوائی کا امکان۔ مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں پیرا ملٹری فورسز کی 100 اضافی کمپنیاں تعینات کرنے کا حکم دیا۔
اس سے پہلے 17 فروری کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے میرواعظ عمر فاروق کے ساتھ چار دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں شبیر شاہ، ہاشم قریشی، بلال لون اور عبد الغنی بھٹ کی سکیورٹی واپس لے لی تھی۔
ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے مرکزی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی ایک اسٹڈی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی اور نظریہ سے وابستہ ہے۔