زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کے سنگھو بارڈر پرگزشتہ دو مہینوں سے مظاہرہ کر رہے کسانوں کی جگہ خالی کرا رہے مبینہ طور پر مقامی لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے، جس میں ایک ایس ایچ او شدید طور پرزخمی ہو گئے ہیں۔بڑی تعدادمیں سکیورٹی فورسز تعینات ہیں اور یہاں کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
انڈیا ٹوڈے کےصحافی راجدیپ سردیسائی کے ایک مہینےکی تنخواہ بھی کاٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے 26 جنوری کو کسانوں کےٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد میں ایک نوجوان کی موت پر ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ ان کی موت پولیس فائرنگ میں ہوئی ہے۔ حالانکہ پولیس کی جانب سے ویڈیو جاری کرنے کے بعد انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔
گزشتہ 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران غیرمصدقہ خبریں نشر کرنے کےالزام میں کانگریس رہنما ششی تھرور،صحافی راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈے اور چار دیگر صحافیوں کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں معاملہ درج ہوا ہے۔ انہی لوگوں کے خلاف مدھیہ پردیش کی بھوپال پولیس نے بھی کیس درج کیا ہے۔
ویڈیو: یوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ پر کسانوں کی جانب سے نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشددکو لےکر یوگیندریادو سمیت تمام کسان رہنماؤں کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔ اس مدعے پر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: یوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ پر کسانوں کی جانب سے نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کو لےکر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے دی وائر کے اجئے آشیرواد کی بات چیت۔
دہلی اتر پردیش بارڈر پرواقع غازی پورکے آس پاس پولیس اور نیم فوجی دستوں کی تعداد بڑھاکر اسے چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ سکیورٹی فورسز دوپہر سے ہی یہاں پر فلیگ مارچ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دھرنادے رہے کسانوں کے بجلی پانی بھی کاٹ دیےگئے ہیں۔
دہلی پولیس نےیوم جمہوریہ کےموقع پر کسانوں کےٹریکٹر پریڈ میں ہوئےتشدد کے سلسلے میں راکیش ٹکیت، یوگیندریادو اورمیدھا پاٹیکرسمیت37 کسان رہنماؤں کے خلاف نامزد ایف آئی آردرج کی ہے اور 20 کسان رہنماؤں کو نوٹس جاری کرکے پوچھا ہے کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جانی چاہیے۔
تین زرعی قوانین کےخلاف کسان باغ پت ضلع کے بڑوت تھانہ حلقہ واقع قومی شاہراہ کے کنارے پچھلے سال 19 دسمبر سے دھرنا دے رہے تھے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے دیر رات لاٹھی چارج کر انہیں ہٹا دیا، جبکہ پولیس اس سے انکار کر رہی ہے۔
دہلی میں ٹریکٹر پریڈ سے پہلے اتر پردیش کے سیتاپور ضلع میں کئی کسانوں کو نوٹس جاری کرکے 50 ہزار سے لےکر 10 لاکھ تک کا بانڈ بھرنے کو کہا گیا تھا۔ انتظامیہ نے اس قدم کو صحیح ٹھہراتے ہوئے کہا کہ امن وامان کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔
یوم جمہوریہ کے موقع پر نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے بعد یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آخر کیوں کسانوں نے پولیس کے ذریعےطے شدہ راستے پر پریڈ نہیں نکالا۔ حالانکہ دہلی کے کچھ علاقوں میں دیکھا گیا کہ پولیس نے ان راستوں پر ہی بیریکیڈنگ کر دی تھی جس کی وجہ سے لوگ غصے میں آ گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر مختلف صحافیوں اور شخصیات کا یہ دعویٰ کہ یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر پریڈ کے دوران لال قلعہ پر پہنچے مظاہرین نے خالصتان کا جھنڈا پھہرایا فیکٹ چیک میں غلط پایا گیا ہے۔
یوم جمہوریہ کے موقع پرمرکز کےتین زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کے سلسلےمیں دہلی پولیس نے یوگیندریادو سمیت نو کسان رہنماؤں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے اور تقریباً 200 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ تشدد کے دوران لگ بھگ 300 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
نوجوان کی پہچان 27سالہ نوریت سنگھ کے طور پر ہوئی ہے۔ نوریت آسٹریلیا میں گریجویشن کی پڑھائی کر رہے تھے اور حال ہی میں ہندوستان لوٹے تھے۔ وہ اتر پردیش کے رام پور ضلع کے بلاسپور تحصیل کے تحت آنے والے ڈبڈ با گاؤں کے رہنے والے تھے۔
کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے بعدسنیکت کسان مورچہ نے کہا کہ وہ تشدد کے ناپسندیدہ اور ناقابل قبول واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں شامل لوگوں سے خود کو الگ کرتے ہیں۔ اس بیچ دہلی-این سی آر کے کچھ حصوں میں انٹرنیٹ خدمات کو 12 گھنٹے کے لیے بندکر دیا گیا ہے۔
کسان تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک فروری کو بجٹ کے دن مختلف جگہوں سے پارلیامنٹ کی طرف کوچ کریں گے۔ کسان رہنما درشن پال نے کہا کہ کسان تینوں نئے زرعی قوانین کو رد کرنے کی مانگ پر قائم ہیں اور ان کے پورا ہونے تک ان کی تحریک جاری رہےگی۔
گزشتہ دو مہینے سے دہلی کی مختلف سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسان 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر پریڈ نکال رہے ہیں۔ دہلی کے الگ الگ بارڈر سے دی وائر کی رپورٹ۔
ویڈیو: اتر پردیش میں بندیل کھنڈ کے سات اضلاع میں کسانوں کو زراعتی بازار مہیا کروانے کے مقصد سے 625.33 کروڑ روپے خرچ کر ضلع، تحصیل اور بلاک سطح پرکل 138 منڈیاں بنائی گئی تھیں ۔ آج اکثر منڈیوں میں کوئی خرید وفروخت نہیں ہوتی، احاطوں میں زنگ آلود تالے لٹک رہے ہیں اور مقامی کسان پریشان ہیں۔
جمعہ کی رات کوسنگھو بارڈر پر مظاہرہ کر رہےکسانوں نے ایک نوجوان کو پکڑا، جس نے دعویٰ کیا کہ دو لڑکیوں سمیت کل دس لوگوں کو رواں تحریک اوریوم جمہوریہ پر ہونے والی ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد بھڑ کانے کا کام دیا گیا تھا۔ نوجوان نے یہ بھی کہا کہ چار کسان رہنماؤں کےقتل کی سازش کی گئی ہے۔
شرومنی اکالی دل کے قومی ترجمان اور دہلی سکھ گردوارہ مینیجنگ کمیٹی کےصدرمنجندرسنگھ سرسا کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کی حمایت کرنے پیلی بھیت گئے تھے، جہاں سے انہیں گرفتار کر بریلی لے جایا گیا اور دیر رات رہا کیا گیا۔ پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
خصوصی رپورٹ: نئے زرعی قوانین کی مخالفت کے بیچ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کو کافی غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت اس سے متعلق دستاویز مانگے جانے پر وزارت زراعت نے سپریم کورٹ میں معاملے کے زیرسماعت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو عوامی کرنےسے انکار کیا۔ حالاں کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی ایسا اہتمام نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالا کی بیٹھک کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ریاست کی بی جے پی قیادت والی سرکار نئے زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کر رہی ہے۔
بھارتیہ کسان یونین کے صدربھوپیندر سنگھ مان نے کہا کہ کمیٹی میں انہیں لینے کے لیے وہ سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں لیکن کسانوں کے مفادات سےسمجھوتا نہ کرنے کے لیے وہ انہیں ملے کسی بھی عہدہ کو چھوڑنے کو تیار ہیں۔ مان نے یہ بھی کہا کہ […]
دہلی کی مختلف سرحدوں پر لکڑیاں اکٹھا کرکے جلائی گئیں اور اس کے چاروں طرف گھومتے ہوئے کسانوں نے نئےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔ اس دوران مظاہرہ کررہے کسانوں نے نعرے لگائے، گیت گائے اور اپنی تحریک کی جیت کی دعاکی۔ کسان ایک مہینے سے زیادہ سے ان قوانین کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ہندوستان دو راہے پر کھڑا ہے اور عدالت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ پڑوسی ملک کی عدالتوں نے’نظریہ ضرورت’کی نا مبارک اصطلاح وضع کر کے ایوب خان، یحیی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت کو سند جواز بخشا اور آئین کی پامالی کا سبب بنتی رہی ہیں۔ ہماری عدالتوں نے بھی’آستھا/عقیدہ’ اور ‘جَن بھاونا/عوامی امنگوں’ کی نا معقول اصطلاحات وضع کر کے گزشتہ دنوں میں اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔
سپریم کورٹ میں سرکار کےاس قبولنامے سے پہلے پچھلے کچھ مہینوں میں کئی بی جے پی رہنما کسانوں کے مظاہرہ میں خالصتانیوں کے شامل ہونے کاالزام لگا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ کابینہ وزیر روی شنکر پرساد، پیوش گوئل اور وزیر زراعت نریندر تومر نے بھی اس سلسلے میں ماؤنواز اور ٹکڑ ٹکڑے گینگ جیسے لفظوں کا استعمال کیا ہے۔
متنازعہ زرعی قوانین کےآئینی جواز کی جانچ کیے بناسپریم کورٹ کے اس پر روک لگانے کے قدم کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں ہے۔ اس سے پہلے ایسے کئی کیس جیسے کہ آدھار، الیکٹورل بانڈ، سی اے اےکو لےکر مانگ کی گئی تھی کہ اس پر روک لگے، لیکن عدالت نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سےزرعی قوانین پر مرکز اور کسانوں کے بیچ تعطل کو ختم کرنے کے مقصد سے بنائی گئی کمیٹی میں بھارتیہ کسان یونین کے بھوپیندر سنگھ مان، شیتکاری سنگٹھن کے انل گھانوت ، پرمود کمار جوشی اور ماہرمعاشیات اشوک گلاٹی شامل ہیں۔ ان چاروں نےنئے قوانین کی حمایت کی ہے۔
ناانصافی کے خلاف کسانوں نےتاریخ میں ہمیشہ مزاحمت کی ہے اور باربار کی ہے۔ کسانوں کا موجودہ مظاہرہ بھی اسی شاندار روایت پر عمل پیرا ہے۔
حالیہ دنوں میں عوام کا احتجاج کرتے ہوئےوزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے دورے پر ان کا ہیلی کاپٹر نہ اترنے دینا، میئر کے انتخاب میں امبالہ میں وزیر اعلیٰ کی مخالفت ہونا اور اسی انتخاب میں سونی پت اور امبالہ جیسی شہری سیٹیوں پرہارنا اس بات کے اشارے ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کی حالت کمزور ہو رہی ہے۔
مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کئی عرضیوں کو سنتے ہوئے سی جےآئی ایس اے بوبڈے نے کہا کہ سرکار جس طرح سے معاملے کو سنبھال رہی ہے اس سے وہ بےحدمایوس ہیں۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر سرکار کہے کہ قوانین کونافذکرنے پر روک لگائےگی، تو عدالت اس کے لیےکمیٹی بنانے کو تیار ہے۔
سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے مدنظر زرعی قوانین کی مخالفت میں بڑی تعداد میں دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں کو لےکرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ کیامظاہرین کو کووڈ 19سے بچانے کے لیے احتیاطی قدم اٹھائے گئے ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سےلائے گئے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لےکرکئی ریاستوں کے کسان دہلی کی مختلف سرحدوں پرایک مہینے سے زیادہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔
نئےزرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کو پنجاب کے گلوکاروں کی طرف سےبھی بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ نومبر کے اواخر سے جنوری کے پہلے ہفتے تک الگ الگ گلوکار وں کے دو سو سے زیادہ ایسے گیت آ چکے ہیں، جو کسانوں کے مظاہروں پرمبنی ہیں۔
مرکزی حکومت سے جمعہ کو ہونے والی آٹھویں دور کی بات چیت سے پہلے ہزاروں کسانوں نے دہلی اور ہریانہ میں ٹریکٹر مارچ نکالا۔کسانوں کا کہنا ہےکہ 26 جنوری کوہریانہ،پنجاب اور اتر پردیش کے مختلف حصوں سے قومی راجدھانی میں آنے والے ٹریکٹروں کی مجوزہ پریڈ سے پہلےیہ محض ایک ریہرسل ہے۔
خصوصی رپورٹ: پچھلے سال نومبر میں چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنرز کی تقرری ہوئی تھی۔ اس سے متعلق دستاویز بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود سرچ کمیٹی نے بنا شفاف عمل اورمعیار کے ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا۔ وہیں وزیر اعظم پر دو کتاب لکھ چکے صحافی کو بنا درخواست کے انفارمیشن کمشنر بنا دیا گیا۔
یہ کھیت اور پیٹ کی لڑائی ہے جو سڑکوِں پر لڑی جا رہی ہے۔ قیادت پنجاب ضرور کر رہا ہے لیکن اس میں پورے بھارت کے کسان شامل ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کو جمہوری ریاست عزیز ہے تو انہیں اب کی بار جمہور کے سامنے ہارنا ہی ہوگا، ہمیشہ جیت کی بے لگام خواہش کبھی کبھی بڑی تکلیف دہ دائمی ہار پر منتج ہوتی ہے۔
ٹاور انفرااسٹرکچر پرووائیڈرس ایسوسی ایشن کے مطابق،ریاست میں کم سے کم 1600 ٹاوروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کئی حصوں میں ٹاوروں کی بجلی فراہمی روک دی گئی ہے اور ساتھ ہی کیبل بھی کاٹ دیے گئے ہیں۔ وہیں جالندھر میں جیو کی فائبر کیبل کے کچھ بنڈل بھی جلا دیے گئے ہیں ۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جب تک جموں وکشمیر کو آرٹیکل370 کے تحت ملے خصوصی درجے کو بحال نہیں کیا جاتا ہے، تب تک وہ انتخاب نہیں لڑیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکار انہیں حراست میں لینا چاہتی ہے تو سیدھے ان کے پاس آئے، اورگھرکے ممبروں ، دوستوں اور پارٹی کے اتحادیوں کو پریشان کرنا بند کر دے۔
ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر آئندہ میونسپل انتخاب کی تشہیر کے لیے گزشتہ منگل کو ایک عوامی اجلاس کرنے امبالہ گئے تھے۔ اس دوران مظاہرہ کررہے کسانوں کے ایک گروپ نے انہیں کالے جھنڈے دکھائے اور سرکار کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔
ویڈیو: زرعی قوانین کو لےکر کسانوں اور سرکار کے بیچ جاری تعطل کو سلجھانے کے لیے سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا مشورہ دیا ہے۔ اسے لےکر دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔