تعقل پسند اور انسداد توہم پرستی کے کارکن 82 سالہ گووند پانسرے کو 16 فروری 2015 کو کولہا پور میں مارننگ واک سے گھر لوٹتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ قتل کے ملزم ہندوشدت پسند گروپ ‘سناتن سنستھا’ کے رکن ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں بتایا کہ ایک اگست 2019 کے بعد سے کئی علیحدگی پسندرہنماؤں، پتھراؤ کرنے والوں سمیت 627 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے 454 لوگوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کوئی بھی نظربند نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
اس سے پہلے ہائی کورٹ نے اپنے ایک آرڈر میں کہا تھا کہ سرکار کے ذریعے چلائے جارہے احمدآباد سول ہاسپٹل کی حالت قابل رحم اور کال کوٹھری سے بھی بدتر ہے۔ اس کے بعد اس بنچ میں تبدیلی کی گئی تھی۔
کو رونا کو لے کر اسپتالوں کی قابل رحم حالت اورحفظان صحت کو لے کرریاست کی بد نظمیوں پر گجرات سرکار کو بےحد سخت پھٹکار لگانے والی ہائی کورٹ کی بنچ میں اچانک تبدیلی کیے جانے سے ایک بار پھر ‘ماسٹر آف روسٹر’ کارول سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
جموں وکشمیر کے سابق ایم ایل اے اور سینئرسی پی ایم رہنما یوسف تاریگامی نے ریاست کے بڑے رہنماؤں کی حراست کو لےکر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر جموں وکشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو حکومت وہاں الیکشن کیوں نہیں کراتی۔
جموں و کشمیر میں 2018 میں پتھر پھینکنے کے 1458 اور 2017 میں 1412 واقعات درج کئے گئے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے بعد سے یہاں 1193 واقعات درج کئے گئے ہیں۔ اگست 2019 میں ریاست میں پتھربازی کے کل 658 واقعات سامنے آئے، جبکہ اس سے پہلے جولائی میں صرف 26 واقعات ہوئے تھے۔
فون او رانٹرنیٹ خدمات کے متاثر ہونے کے بعد سے اب تک صحافیوں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک فوٹو جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ ، میں نے کبھی اپنے کیمرے کو بند نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران جہاں بھی گیا مجھے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ۔وہیں ایک دوسری صحافی کا کہنا ہے کہ ، میں نے کشمیر کی صحیح تصویر کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب میری اسٹوری چھپتی تھی تو اس میں میرا لکھا ہوا 40 فیصد ہی ہوتا تھا اور باقی وہ خود ہی شامل کرتے تھے۔
سرینگر کے نوہٹا واقع جامع مسجد ،جمعے کی نماز کے لیے پچھلے لگ بھگ چار مہینے سے بند ہے۔ پانچ اگست کو جموں کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی وہاں انٹرنیٹ خدمات بند ہیں۔
جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹانے کے ساتھ ہی وہاں ذرائع ابلاغ پر لگی پابندیوں کو چیلنج دیتےہوئے کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد، کشمیر ٹائمس کی مدیر انورادھا بھسین اور دیگرلوگوں نے عرضیاں دائر کی تھیں۔
جموں و کشمیر پولیس کے ذریعے انجانے میں صحافیوں کو بھیجے گئے ای میل میں ’ ڈی این اے فائل ‘نام سے ایک فائل تھی، جس میں ایسے سوشل میڈیا پوسٹس کے اسکرین شاٹ تھے، جو کہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بارے میں لکھے گئے تھے۔
کشمیر میں لگی پابندی پر عرضی داخل کرنے والوں کی جانب سے پیش ایک وکیل نے جب کہا کہ ہردن ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے باوجود ہانگ کانگ ہائی کورٹ نے مظاہرین پر سے سرکاری پابندی ہٹا لینے کی مثال دی ۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کا سپریم کورٹ کہیں زیادہ بہترہے۔
پارلیامنٹ سیشن میں فاروق عبداللہ کو حصہ لینے کی اجازت دینے کے اپوزیشن کے مطالبہ پر مرکزی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا کہ کانگریس نے ایمرجنسی کے دوران 30 رکن پارلیامان کو حراست میں رکھا تھا۔ اس پر نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ریڈی کا تبصرہ اس بات کی دلیل ہےکہ جموں و کشمیر ایمرجنسی کے برے دور سے گزر رہا ہے۔
وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد پتھربازی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری سے 4 اگست تک اوسطاً ہر مہینے پتھربازی کے 50 واقعات ہوئے۔وہیں 5 اگست کے بعد ایسے معاملے اوسطاً ہر مہینے بڑھکر 55 ہو گئے۔
مرکزی وزیر نے کہا، ‘ہمارے پاس ایک نیا نظام ہے اوریہ نظام سیدھے مرکز کو رپورٹ کرتا ہے اور ہم اسے اس حلقے کے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے اور کامیاب بنانے کے لئے اس کا سہرا دیتے ہیں۔’
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں ۔ اس مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ
رام چندر گہا کا کالم: مکیش امبانی کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق بالکل خاموش ہیں؛ جبکہ سرکار نے سرمایہ کاری میلے کو غیر معینہ مدت کے لیے آگے بڑھا دیا ہے۔ وعدے تو مزید نوکری، مزید فیکٹریز کے کیے گئے تھے، مگر 5اگست کے بعد سے کشمیریوں نے پایا کیا ہے؛ مزید افواج، مزید پابندیاں۔ اس نے ان میں گہرا غصہ پیدا کر دیا ہے۔
وزارت قانون کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک کے مختلف ہائی کورٹ میں 420 ججوں کی کمی ہے، جو اس سال اب تک سب سے زیادہ ہے۔ ایک اکتوبر تک ہائی کورٹ میں 659 جج تھے، جبکہ کل منظور شدہ عہدوں کی تعداد 1079 ہے۔
کشمیر کے سی پی آئی ایم رہنما اور سابق ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے ہیں ۔ نئی دہلی واقع پارٹی صدر دفتر پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیری آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، گھٹن ہو رہی ہے وہاں۔
کورٹ نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر بھی مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔
کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یچوری تاریگامی کی صحت کے بارے میں جاننے کے علاوہ کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں ہوں گے۔
جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے لوگ اپنے معاملوں کی سماعت کے لئے ہائی کورٹ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری محکمے بھی اپنی پیروی کرنے کے لئے کورٹ میں حاضر نہیں ہو سکے۔
بامبے ہائی کورٹ کی بنچ نے مہاراشٹر حکومت کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل سکریٹری کو گووند پانسرے قتل معاملے کی دھیمی جانچ کی وجہ بتانے کے لیے 28 مارچ کو طلب کیاہے۔
گووند پانسرے مزدوروں کے لئے لڑتے ہوئے لگاتارحکومت کی پالیسیوں کو تنقیدکا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ذریعے ناتھو رام گوڈسے کو شہید بتانے کے خلاف بھی مورچہ کھولا تھا۔
ڈیجیٹل عہد میں پریس کی آزادی پر بولتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سیکری نے کہا کہ آج جوڈیشیل پروسیس دباؤ میں ہے۔ معاملے کی شنوائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ بحث شروع کر دیتے ہیں کہ کیا فیصلہ ہونا چاہیے، اس کا اثر ججوں پر پڑتا ہے۔
این جے ڈی جی (National Judicial Data Grid) کے مطابق نچلی عدالتوں میں 5135 جوڈیشیل افسروں کی کمی ہے جبکہ ملک بھر کے ہائی کورٹ میں 384 ججوں کی کمی ہے۔
سی بی آئی اور سی آئی ڈی کے ذریعے دونوں معاملوں میں پروگریس رپورٹ سونپنے کے بعد عدالت نے کہا کہ جب دونوں قتل کی جانچ کے لیے دونوں ایجنسیوں کے پاس الگ سے ٹیم ہیں، تو معاملے میں وقت کے ساتھ پروگریس ہونی چاہیے۔
بامبے ہائی کورٹ نے پوچھا کہ پولیس ایسے دستاویزوں کو اس طرح پڑھ کر کیسے سنا سکتی ہے جن کا استعمال معاملے میں ثبوت کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔
اسپیشل رپورٹ: گورکھپور یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام ہے کہ اساتذہ کی تقرری کے دوران جنرل میں بھی ایک خاص ذات کو ترجیح دی گئی۔ سلیکشن پروسس کو لےکر سوال اٹھ رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ دابھولکر اور پانسرے کے بعد دوسرے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے ان کے ناموں کی فہرست میڈیا میں پھیلائی جا رہی ہے۔ لبرلس اور سماجی کارکنان کو ڈر ہے کہ اگر وہ اپنے خیال عام کرتے ہیں تو ان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
کورٹ نے اس معاملے میں وشوناتھ بنام ریاست جھارکھنڈ معاملے میں دیے گئے جھارکھنڈ کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیاتھا کہ جانچ کے سلسلے میں سی آر پی سی کی دفعہ 102 کے تحت پولیس کسی غیر منقولہ جائیداد کو سیل نہیں کر سکتی۔
عورت اپنے شوہر سے الگ رہتی ہے اور اس نے ہندو میرج ایکٹ کی دفعہ 24 کے تحت گزارہ بھتہ کی مانگ تھی۔
اگر گمراہ کن جانچ اور غلط استغاثہ کی وجہ سے بےقصور ملزم کو پریشانی جھیلنی پڑتی ہے تو زندہ رہنے کے حق کے تحت اس کو حکومت سے معاوضہ پانے کا حق ہے۔
فی الحال تو کانگریس دہلی کی سیاست میں واپس اپنے قدم جمانے کے موقعے تلاش کر رہی ہے۔غورطلب ہے کہ کانگریس کے روایتی ووٹرس نے 2015 کے الیکشن میں عآپ کا دامن تھام لیا تھا۔
کانگریس کے لئے لازم ہے کہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ معاملات میں وضع داری کا مظاہرہ کرے اور تدبر سے کام لے ورنہ کیجریوال کے ساتھ اس نے جو سلوک کیا وہ مستقبل میں کیجریوال سے زیادہ خود کانگریس کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
جنوبی دہلی کی 6 کالونیوں میں ہاؤسنگ اسکیم کے لیے تقریباً 16 ہزار پیڑ کاٹنے پر ہائی کورٹ نے 4 جولائی تک روک لگا دی ہے۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے دہلی کے ایل جی انل بیجل کے آفس میں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے دھرنا دیے جانے پر دہلی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر راج شری چندرا اور سابق اگریکلچر سکریٹری سراج حسین سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
وزیر صحت ستیندر جین کے بعد نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی بھی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ دونوں کو ایل این جے پی ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا ہے۔
آئین میں کسی سیٹنگ جج کو اس کے عہدے سے ہٹائے جانے کا عمل بےحد پیچیدہ ہے۔ قانون سازمجلس کے دونوں ایوانوں کے ذریعے منظور شدہ تجویز کی بنیاد پر صدر ہی ان کو ہٹا سکتے ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک عرضی کے جواب میں کہا کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کو خط وکتابت میں دلت لفظ کے استعمال سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ لفظ آئین میں نہیں ہے۔