صرف اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں 98 صحافی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ مئی میں ابھی تک یہ تعداد 54تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی ہر روز اوسطاً تین صحافیوں کی موت ہو رہی ہے۔ کسی جنگ کو کور کرتے ہوئے بھی کبھی اتنی بڑی تعداد میں صحافی مار ے نہیں گئے ہیں۔
حکومت نے پایا کہ کووڈ 19مریضوں کے علاج میں پلازمہ تھراپی سنگین بیماری کو دور کرنے اور موت کے معاملوں کو کم کرنے میں مفید ثابت نہیں ہوئی۔ پلازمہ تھراپی میں کووڈ 19 سے نجات پا چکے شخص کے خون سے اینٹی باڈی لےکر اس کومتاثرہ شخص میں چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس کے جسم میں انفیکشن سے لڑنے کے لیےمدافعتی نظام مضبوط ہو سکے۔
مرکز نے سپریم کورٹ کو کہا ہے کہ اسےصحیح ویکسین پالیسی نافذ کرنے کو لےکرایگزیکٹوکی دانشمندی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی واضح طور پر اعلانیہ قومی ٹیکہ کاری پالیسی ہے ہی نہیں۔
اتر پردیش کے سیتاپور سے بی جے پی ایم ایل اے راکیش راٹھور نے یہ بھی الزام لگایا کہ یوپی سرکار کے کام کاج میں ایم ایل اے کاکوئی رول نہیں ہے اور ان کے مشوروں پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔
سابق ہیلتھ سکریٹری کےسجاتا راؤ نے کہا کہ کووڈ 19 کی تیسری لہر کب آئےگی یہ ہم ابھی واضح طور پرنہیں کہہ سکتے ہیں۔ دوسری لہر کا اثر کم ہونے کے دوران ہمارے پاس ایک مختصرمدت ہوگی اور اسی مدت میں ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم اپنی 70 فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری کر دیں۔
مودی حکومت کی جانب سےکورونا وائرس کو لےکر بنائے گئے سائنسی مشاورتی گروپ کے چیئرمین شاہد جمیل نے پچھلے کچھ مہینوں میں کئی بار اس بات کو لےکر ناراضگی ظاہر کی تھی کہ کورونا انفیکشن کو لےکرپالیسیاں بناتے ہوئےسائنس کو ترجیح نہیں دیا جا رہا ہے، جوباعث تشویش ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کے قہر کے دوران دوا، آکسیجن وغیرہ کی کمی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے اسپتال کی چوکھٹ اور علاج تک بھی بہ آسانی رسائی میسر نہیں ہے۔
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے کووڈ 19 کے خلاف لڑائی میں متحد اور مثبت بنے رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ حکومت، انتظامیہ اور عوام ، سب کووڈ کی پہلی لہر کے بعد غفلت میں آ گئے جبکہ ڈاکٹروں کی جانب سےاشارےدیے جا رہے تھے۔
اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی متاثرین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے۔اس کی وجہ سے ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر سامنے آ گیا ہے کہ کیا اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم انسان بھی رہ جا ئیں گے؟
ویڈیو: ہندوستان ان دنوں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک مہینے سے لگاتارتین لاکھ سے زیادہ انفیکشن کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔ قومی راجدھانی دہلی بھی اس سے بری طرح متاثر ہے۔ کورونا وائرس سے جوجھ رہے دہلی کے پڑوسی راجستھان، ہریانہ، اتر پردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب کا حال۔
دہلی پولیس نے کہا کہ انسدادکووڈ 19ٹیکہ کاری مہم کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کرنے والے یہ پوسٹر شہر کے کئی حصوں میں لگائے گئے۔ ان میں لکھا تھا کہ مودی جی، ہمارے بچوں کی ویکسین بیرون ملک کیوں بھیج دی؟
ویڈیو: ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے۔ اس بیچ مرکزی حکومت نے ایک مئی سے 18 سے 45کی عمر کے لوگوں کے لیے کووڈ ٹیکہ کاری شروع کر دی ہے۔ حالاں کہ تمام صوبوں نے ویکسین کی کمی ہونے کی بات کی ہے۔ دی وائر نے دہلی کے ویکسینیشن سینٹر جاکر وہاں کا حال جانا اور لوگوں سے بات کی۔
انٹرویو: سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے ملک کے کووڈ بحران کے لیے نریندر مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ سرکارعوام کو ان کے حال پر چھوڑ چکی ہے، ایسے میں اپنی حفاظت کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔
کوروناانفیکشن مودی حکومت کی اسکرپٹ کے حساب سے نہیں آیا اس لیے اس کا کوئی تسلی بخش جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ہندوستان میں صحت عامہ اور سماجی اقدامات پر عمل پیرا نہ ہونا بھی موجودہ حالات کے لیے ذمہ دار ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کےکل معاملے اور اموات میں ہندوستان کی95 اور93 فیصدی حصہ داری ہے۔ وہیں اگر عالمی سطح پر دیکھیں تو 50 فیصدی معاملے اور 30 فیصدی اموات ہندوستان میں ہو رہی ہیں۔
سرکارکی طرف سےکووڈ 19کی دوسری لہر کے اندازے میں چوک پر ماہر معاشیات جیاں دریج نے کہا کہ سرکار طویل عرصہ تک وائرس کے کمیونٹی کے بیچ پھیلنے کی بات سے انکار کرتی رہی ہے، جبکہ ریکارڈ میں معاملے لاکھوں میں تھے۔ عوام کو یقین دلانے کے لیے کہ سب ٹھیک ہے، گمراہ کن اعداد وشمار کا سہارا لیا گیا۔ ہم اب اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
اتر پردیش میں لکھنؤ پولیس ایک تھائی خاتون کی موت کی جانچ کر رہی ہے، جس کی کورونا انفیکشن سے تین مئی کو موت ہو گئی۔ اس کے بعد سماجوادی رہنما آئی پی سنگھ نے معاملے کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ خاتون کال گرل تھیں اور انہیں بی جے پی ایم پی سنجے سیٹھ کے بیٹے نے لکھنؤ بلایا تھا۔
بہار کے سارن سے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے ایم پی فنڈ سے خریدے گئے درجنوں ایمبولینس کےکورونا مہاماری کے باوجود استعمال نہیں کیے جانے کے معاملے کو اجاگر کرنے والے سابق ایم پی پپو یادو کو پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے سلسلےمیں حراست میں لینے کے بعد 32 سال پرانے زیرالتوا معاملے میں عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ ریاستی سرکار کے اس قدم کو این ڈی اے میں شامل رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بکسر ضلع میں چوسہ کے پاس گنگا ندی سے ملے درجنوں مشتبہ کووڈ 19متاثرہ نامعلوم لاشوں کو پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لیےنمونے لیےجانے کے بعد انتظامیہ نے دفن کر دیا۔ کووڈ انفیکشن کی دوسری لہر کے بڑھتےقہر کی وجہ سے ماہرین لا شوں کو اس طرح سے ندی میں بہائے جانے کو بےحدتشویشناک بتا رہے ہیں۔
کیا تاریخ اب پھرسے دہرا ئی جائےگی؟ کیا واقعی نریندر مودی کے آخری دن قریب آرہے ہیں؟ کیا ان کو ان کے نئے تعمیر کردہ عالیشان وزیر اعظم ہاؤ س میں رہنا نصیب ہوگا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
ویڈیو: اتر پردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ وارانسی میں اب تک 72 ہزار سے زیادہ کورونا وائرس کے معاملے آ چکے ہیں اورتقریباً700 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ مودی نے کورونا کی مدت میں اپنے اس پارلیامانی حلقہ کا ایک بار بھی دورہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ اس دوران وہ دوسرے صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں لگاتارمتحرک رہے۔
ویڈیو: سوشل میڈیا پر رام دیو کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ اس میں وہ ایک نیوزچینل پر کورونا مریضوں کا مذاق اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ رام دیو آکسیجن کی کمی سے جوجھ رہے لوگوں کو یوگ کرنے کی صلاح دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس سے آکسیجن کا لیول بڑھ جائےگا۔
بکسر پولیس نے بتایا کہ ان میں سے کچھ کی آخری رسومات کی ادائیگی کر دی گئی ہے اور کچھ کی ابھی کورونا ٹیسٹنگ کی جانی ہے۔ ضلع انتظامیہ نے یہ بھی کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ لاشیں پڑوسی صوبے اتر پردیش کے وارانسی اور الہ آباد جیسے شہروں سے بہہ کر آئی ہوں۔ اتر پردیش کے ہمیرپور میں یمنا ندی میں بھی لاشیں ملی ہیں۔ انتظامیہ نے کہا کہ موتیں کووڈ سے نہیں ہوئی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی نے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کوخط لکھ کر یہاں کے ماحول میں وائرس کےویرینٹ کی جانچ کرانے کی گزار ش کی ہے۔ اس کے علاوہ دہلی یونیورسٹی کےتقریباً24اساتذہ ، جامعہ ملیہ کے چار پروفیسروں سمیت 20 سے زیادہ ملازمین اور کروڑی مل کالج کے دو پروفیسروں کی موت کووڈ 19 سے ہو چکی ہے۔
کورونا کی پہلی لہر ملک کےدیہی علاقوں کو بہت متاثر نہیں کر پائی تھی، لیکن دوسری لہر غم کا سمندر لےکر آئی ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ عشرے میں پوروانچل کے گاؤں میں ہر دن کئی لوگ بخار، کھانسی و سانس کی تکلیف کے بعد جان گنوا رہے ہیں۔ جانچ کے فقدان میں انہیں کورونا سے ہوئی اموات کے طور پر درج نہیں کیا گیا ہے۔
پچھلے مہینے مہاراشٹر میں سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما دیویندرفڈنویس کے 22 سالہ بھتیجے کے کووڈ ویکسین لگا لینے کی وجہ سے تنازعہ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ اس وقت 18سال سے زیادہ عمر والوں کے لیے ٹیکہ کاری شروع نہیں ہوئی تھی۔ کئی رہنماؤں نے سوال اٹھائے تھے کہ آخر کیسےفڈنویس کے بھتیجے کو ویکسین لگایا گیا، جبکہ وہ ابھی تک اس کے اہل نہیں ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیاپر وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں یوگ گرو رام دیو کہتے دکھ رہے تھے کہ چاروں طرف آکسیجن ہی آکسیجن کا ذخیرہ ہے، لیکن مریضوں کو سانس لینا نہیں آتا ہے اور وہ منفی جذبات کوپھیلا رہے ہیں کہ آکسیجن کی کمی ہے۔ اس بارے میں آئی ایم اے کےنائب صدر ڈاکٹر نوجوت سنگھ دہیا نے جالندھر پولیس میں شکایت درج کرواکر ان کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کی ہے۔
بنگلورو کے تمام سات کووڈ شمشانوں میں پچھلے تین ہفتے سے چوبیسوں گھنٹے آخری رسومات کی جا رہی ہیں۔ کئی جگہوں پر ملازمین کی کمی کی وجہ سے رضاکاراور عارضی ملازمین شمشان میں لگاتار کام کر رہے ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس بات کا نوٹس لیا کہ دہلی فسادات کےمعاملے میں گرفتار کی گئیں نتاشا نروال کی فیملی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی نہیں ہے۔ پچھلے سال 22 فروری 2020 کو دہلی کے جعفرآبادمیٹرو اسٹیشن کے باہرشہریت قانون کے خلاف ہوئے ایک احتجاج میں حصہ لینے پر 23 مئی2020 کو نروال کو ان کی ایک ساتھی دیوانگنا کلیتا کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کووڈ 19 کی دوسری لہر کے لیے اس کے عہدیداروں پر قتل کا معاملہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اس کو لےکر الیکشن کمشنر راجیو کمار نے اپنا ایک الگ حلف نامہ تیار کر استعفیٰ دینے کو کہا تھا۔کمیشن نے اسے خارج کر دیا۔
بناسکانٹھا ضلع میں ایک گئوشالا میں‘کووڈ آئسولیشن سینٹر’ شروع ہوا ہے، جہاں ہلکےآثار والے کورونا مریضوں کا دودھ، گھی اورگائے کے پیشاب سے بنی دوائیوں سے علاج کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہیں ایک بی جے پی ایم ایل اے سریندر سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر صبح خالی پیٹ گئوموتر پینے سے کورونا وائرس ختم ہو جائےگا، حالانکہ اس بات کا کوئی بھی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔
مشہور بین الاقوامی میڈیکل جرنل دی لانسیٹ نے اپنے اداریہ میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ باربار وارننگ دینے کے بعد بھی حکومت غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی اور کوروناپر اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ جرنل نے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ اگست تک ہندوستان میں تقریباً 10 لاکھ لوگوں کی کورونا سے موت ہو سکتی ہے۔
کووڈ19کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی کوجنم دیا ہے، ویسی تباہی ہندوستان نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ اس بات کے تمام ثبوت ہیں کہ اس کو ٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے […]
ملک بھر میں کووڈ انفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے بیچ مریضوں کووقت پر وینٹی لیٹر نہ ملنے کی بات سامنے آ رہی ہے، وہیں اتر پردیش کے درجن بھر سے زیادہ ا ضلاع کے اسپتالوں میں ٹرینڈاسٹاف کی کمی یا آکسیجن کا صحیح دباؤ نہ ہونے جیسی کئی وجہوں سے دستیاب وینٹی لیٹرز ہی کام میں نہیں آ رہے ہیں۔
گومتی نگر کے سن ہاسپٹل نے تین مئی کو ایک نوٹس میں مریضوں کے اہل خانہ سے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان کے مریض کو اسپتال سے شفٹ کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد لکھنؤ انتظامیہ نے اسپتال پر آکسیجن کی کمی کو لےکر‘جھوٹی خبر’پھیلانے کے الزام میں معاملہ درج کروایا ہے۔ اسپتال نے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے۔
گزشتہ چار دنوں میں گجرات کے دو گاؤں میں‘کووڈ 19 ختم کرنے’کے لیے مذہبی جلوس نکالنے کے الزام میں پولیس نے 69 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ گاؤں کے لوگوں کے ایک طبقے کا ماننا تھا کہ ان کے مقامی دیوتا کے مندر پر پانی ڈالنے سے کووڈ 19 کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
ویڈیو: ہندوستان میں کورونا وائرس غیرمعمولی نقصان کی وجہ بن رہا ہے۔ملک میں حالت اتنی خراب ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ طبی وسائل کی کمی کی وجہ سےبھی مر رہے ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ حکم ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوستان کے اکثرصوبوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش بھی کووڈ 19کے متاثرین کی بڑھتی تعداد اورعلاج کی کمی سے متاثرہے اور صوبے کی طبی سہولیات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
کورونا وبا کے پھیلنے یا پھیلانے کا ذمہ دار اگر ہم ہندو مذہبی ٹھیکیداروں کو ٹھہراتے ہیں تو اس سے کوئی سادھو، سنت، سوامی یا سنیاسی مراد نہیں لے سکتے بلکہ وہ حکمران طبقہ ہی ہے جو بیک وقت صاحب اقتدار بھی ہے اور مذہبی دکاندار بھی۔ پورا آوے کا آوا بہروپ و ہم رنگ ہے، حالت یہ ہے کہ ان کی سیاسی ٹھیکیداری اور مذہبی دکانداری کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔
امریکہ میں وائرس کے ماہرڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ کورونا مہاماری کی دوسری لہر میں ہندوستان کی حالت بےحد مایوس کن ہے اور حکومت ہند کوفوراً عارضی فیلڈ اسپتال بنانے کے لیے فوج سمیت تمام وسائل کا استعمال کرنا چاہیے۔