Assembly Election

نریندر مودی، راہل گاندھی اور اروند کیجریوال۔ تصویر: وکی میڈیا کامنز اور ایکس

دہلی اسمبلی انتخابات خواتین کے لیے جیک پاٹ تو ہیں، مگر …

سیاسی جماعتیں خواتین کو کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں، وہیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں ہے۔

(بائیں) ہری نگر اسمبلی میں وی ایچ پی کی 'شستر دکشا' کے تحت ایک خاتون کوکٹار دیتے ہوئے آرگنائزر، (دائیں) بی جے پی امیدوار شیام شرما اور عآپ  امیدوار سریندر سیتیا۔ (تصویر: دی وائر/فیس بک)

عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان انتخابی جنگ — ’سچا ہندو‘ کون؟

ہری نگر اسمبلی سیٹ پر عآپ اور بی جے پی کے امیدوار وی ایچ پی کے ‘شستر دکشا پروگرام’ میں ایک ساتھ شریک ہوئے۔ دونوں نے پوجا کی اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ وی ایچ پی نے اس پروگرام میں 2100 ہتھیار تقسیم کرنے کی بات کہی۔

سال 2019 میں دہلی میں درگا واہنی کی 'شوریہ پرشکشن ورگ' میں تلوار بازی کی مشق کرتی لڑکیاں۔(تصویر بہ شکریہ: فیس بک/درگا واہنی)

دہلی: مردوں کو ترشول دینے کے بعد اب وشو ہندو پریشد خواتین کو دے گی کٹار

دہلی میں جاری انتخابی سرگرمیوں کے درمیان وشو ہندو پریشد دارالحکومت میں ایک پروگرام کے توسط سے خواتین اور لڑکیوں کے درمیان کٹار تقسیم کر رہی ہے۔ یہ تنظیم اس جنوری میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین کو ‘شستر دکشا سماروہ’ کے تحت یہ ہتھیار تقسیم کرنے جا رہی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: facebook/@ رام تیاگی ہندو)

دہلی انتخابات کے درمیان وشو ہندو پریشد کی مہم: راجدھانی میں 50 ہزار ترشول تقسیم کرنے کا ہدف

انتخابات کے دوران وی ایچ پی دہلی میں اس طرح کے 200 سے زیادہ پروگرام منعقد کر رہی ہے جس کے تحت 50000 سے زیادہ ترشول تقسیم کیے جانے ہیں۔ دہلی میں آخری بار ترشول تقسیم کرنے کی مہم ایک دہائی قبل چلائی گئی تھی۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/BJP4JnK

جموں و کشمیر: جموں خطے میں حد بندی کے عمل سے بی جے پی کو کتنا فائدہ ہوا؟

جموں و کشمیر میں 2022 میں از سر نو انتخابی حلقوں کی حد بندی کی گئی تھی، جس کے بعد جموں میں اسمبلی نشستوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر 43 ہو گئی تھی۔ تاہم، انتخابی اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال: مقتدر شخصیات کی رپورٹ

اس شورش زدہ خطے میں سویلین ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے خوف و ہراس کے ماحول میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف انسداد دہشت گردی اور بغاوت کو کچلنے کے قوانین کا بے محالہ اور بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پریس شدید دباؤ کا شکار ہے۔

فوٹو: رائٹرس

حدبندی کمیشن: کشمیری مسلمانوں کو یتیم بنا کر امن و امان کے خواب دیکھے جا رہے ہیں …

یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو 2024 کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

حد بندی کمیشن: کشمیر کے سیاسی تابوت میں آخری کیل

کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ26293مربع کلومیٹر، کشمیر کے رقبہ 15940مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے ہندوستان میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

جموں و کشمیر: بی جے پی اسمبلی حلقوں کی حدبندی کیوں کرنا چاہتی ہے؟

جموں و کشمیر کا اپنا آئین ہے اور مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کے بغیر ریاست میں حدبندی نہیں کر سکتی اوریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو۔وہیں لوگوں کا ماننا ہے کہ ، بی جے پی اسمبلی انتخابات سے قبل اس خطے میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ کرکے اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔

Hum Bhi Bharat.00_31_08_20.Still009

ویڈیو:کیا راہل گاندھی لوک سبھا انتخابات کا ایجنڈہ سیٹ کر رہے ہیں؟

ویڈیو: کانگریس صدر راہل گاندھی حال کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی جیت کے حقدار بنےاور رافیل مدعے کو بی جے پی کے خلاف بڑا انتخابی مدعا بنانے میں کامیاب رہےہیں۔ کیا راہل آنے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے سیاسی ماحول اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے جے ڈی یو رہنما کے سی تیاگی، سینئر صحافی ارملیش اور وائر کے ڈپٹی ایڈیٹر اجئے آشیرواد سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔

RahulGandhi_CongressTwitter

اسمبلی انتخابات 2018: کیا کانگریس کے’اچھے دن‘ آگئے ہیں؟

ان نتائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان تین ریاستوں میں اپوزیشن متحد ہو کر لڑتی تو بی جے پی کو اس ے زیادہ بڑی ہار کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔خصوصاً مدھیہ پردیش میں جہاں شیوراج سنگھ چوہان کوبے دخل کرنے میں کانگریس کو مشقت کرنی پڑی ۔

کانگریس رہنما دگوجئے سنگھ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

مدھیہ پردیش: 10 سال تک وزیراعلیٰ رہے دگوجئے سنگھ ان دنوں اتنے خاموش کیوں ہیں؟

اسپیشل رپورٹ : مدھیہ پردیش میں کانگریس کے آخری وزیراعلیٰ رہے دگوجئے سنگھ انتخابی تشہیر سے پوری طرح سے غائب ہیں۔ کیا ان کو حاشیے پر دھکیلا جا چکا ہے یا پھر ان کو پردے کے پیچھے رکھنا انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے؟

دہلی میں چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت کے ساتھ الیکشن کمشنر سنیل اروڑااور اشوک لواسا (فوٹو : پی ٹی آئی)

الیکشن کمیشن کا صرف غیر جانبدار ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ نظر آنا بھی ضروری ہے

پانچ ریاستوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کےاسمبلی انتخابات کے اعلان کے لئے بلائے گئے پریس کانفرنس کو لےکراپوزیشن پارٹی کانگریس کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات سنگین ہیں۔

(فوٹو بشکریہ : فیس بک / کمل ناتھ)

مدھیہ پردیش : کیا کمل ناتھ کی کانگریس، شیوراج کو حکومت سے بے دخل کرنے کی حالت میں ہے؟

خاص رپورٹ : مدھیہ پردیش میں پچھلے تین اسمبلی انتخابات ہار‌کر 15 سالوں سے بنواس کاٹ رہی کانگریس اس بار اقتدار میں واپسی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ لیکن، سرخیوں میں پارٹی کی اندرونی اٹھا پٹک ہی حاوی ہے۔

الیکشن کمیشن (فوٹو : پی ٹی آئی)

دسمبر میں لوک سبھا اور 4 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے میں اہل : الیکشن کمیشن

چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت نے کہا کہ اگر 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو وقت سے پہلے دسمبر میں کرایا جاتا ہے، تو اسی وقت 4اسمبلی انتخابات بھی ساتھ میں کرانے میں الیکشن کمیشن اہل ہے۔

فوٹو: ٹوئٹر

مدھیہ پردیش : ایک غیر سیاسی تنظیم جس نے بے روزگاری کو انتخابی مدعا بنا دیا

بےروزگار سیناکی تشکیل اسی سال ہوئی اور شروعات سے ہی اس نے بےروزگاری کے مسئلے پر مسلسل آواز اٹھائی۔ خاص طور پر صوبہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکری نہ ملنا اور بےروزگاری کی بڑھتی شرح کو لے کر اس نے احتجاج کئے۔

Photo: PTI

’ایک ملک، ایک انتخاب‘ جمہوریت کا گلا گھونٹ دے‌گا 

ایک ملک، ایک انتخاب ‘کے ورد کے پیچھے چھپے مقصد سمجھنے کے لئے بہت باریکی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں اور کچھ موٹی موٹی باتوں سے ہی اس کا پتا چل جاتا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ کہ ابھی تک نہ ملک میں ایک تعلیمی نظام ہے، نہ ہی سارے شہریوں کو ایک جیسی طبی سہولت مل رہی ہے۔