روداد؛ پاکستان میں گزرے تیس دن
لاہور اور دہلی بالکل جڑواں بہنیں لگتی ہیں۔ اگر دہلی میں کسی شخص کو نیند کی گولی کھلا کر لاہور میں جگایا جائے، تو شاید ہی اس کو پتہ چلے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں ہے۔
لاہور اور دہلی بالکل جڑواں بہنیں لگتی ہیں۔ اگر دہلی میں کسی شخص کو نیند کی گولی کھلا کر لاہور میں جگایا جائے، تو شاید ہی اس کو پتہ چلے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں ہے۔
فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔
اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے ہیں۔
بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کو فلموں اور نامور شخصیات کے خلاف غیر ضروری تبصرہ کرنے سےگریز کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان بھوپال کی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا سمیت بی جے پی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ‘پٹھان’ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے درمیان آیا ہے۔
شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون اسٹارر فلم ‘پٹھان’ کے خلاف بعض سماج دشمن عناصر کی مخالفت پر جاوید اختر نے کہا کہ کوئی سماج دشمن عناصر نہیں ہیں، وزیر ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے گیت پر سوال اٹھائے تھے۔
بالی وڈ فلموں کے بائیکاٹ کے حوالے سے اداکار سنیل شیٹی نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ ہیش ٹیگ بائیکاٹ بالی وڈ ٹرینڈ کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں کوشش کی جانی چاہیے۔ ہم دن بھر ڈرگس نہیں لیتے، ہم دن بھر غلط کام نہیں کرتے۔ اگر آپ اس بارے میں وزیر اعظم سے کہیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔
یہ معاملہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے اگست 2020 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک صارف کی پروفائل پکچر شیئر کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا اپنی پوتی کی تصویر لگاکر قابل اعتراض زبان کا استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد صارف نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
فلم ‘پٹھان’ کے گانے ‘بےشرم رنگ’ پر تنازعہ کے درمیان معروف اداکارہ آشا پاریکھ نے کہا ہے کہ بکنی پر کوئی ہنگامہ نہیں تھا، یہاں نارنجی (بھگوا ) رنگ کی بکنی کو لے کر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ اب کسی اداکارہ نے نارنجی پہن لیا یا نام کچھ ایسا ہو گیا تو اس کو بین کیوں کر رہے ہیں؟یہ ٹھیک نہیں لگتا ہے؟
ہندوستانی سینما کے معروف ہدایت کار سعید اختر مرزا نے متنازعہ فلم دی کشمیر فائلز کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ فلم میرے لیے کچرا ہے۔ بات طرفداری کی نہیں ہے ۔ انسان بنیے اور معاملے کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون اسٹارر فلم ‘پٹھان’ کے گانے ‘بے شرم رنگ’ پر جاری تنازع کے درمیان رتنا پاٹھک شاہ نے کہا کہ اس طرح کا برتاؤ کرنا کسی بھی معاشرے کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ فنون اور دستکاری کو اپنی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے کے لیے آزادی کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے، جو مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فلمساز کے تبصرہ پر جس طرح حکومت بھڑک اٹھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکام فلمساز اگنی ہوتری کی فلم پر تنقید کو خود ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائےگا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کسی فلم پر ایک سند یافتہ فلمساز کی تنقید کوبرداشت نہیں کر پارہی ہے۔
اسرائیلی فلمساز اور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا کے جیوری چیف نادو لیپڈ نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو ‘فحش’ اور ‘پروپیگنڈہ ‘ بتایا تھا۔ اس پر بڑے پیمانے پر تنقید کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ انہوں نے انجانے میں کسی کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانےکے لیے معافی مانگی ہے۔
بتادیں کہ 53 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) کے جیوری چیف اور اسرائیلی فلمساز نادو لیپڈ نے کہا کہ ہم سب فلم ‘دی کشمیر فائلز’سے حیران اور پریشان ہیں، جو اتنے باوقار فلم فیسٹیول کے ایک آرٹسٹک اور مسابقتی سیکشن کے لیے نامناسب تھی۔
انٹرویو: چار سال پرانےایک ٹوئٹ کے لیے دہلی پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نےتقریباً تین ہفتے جیل میں گزارے۔ اس دوران یوپی پولیس نے ان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ ان کی مسلسل حراست کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے ساتھ علی شان جعفری کی بات چیت۔
گزشتہ دنوں یوپی میں عمل میں آئی دو گرفتاریوں سے واضح ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اب باقی نہیں رہی۔ یا پھر جیسا کہ عیدی امین نے ایک بار کہا تھا کہ ، بولنے کی آزادی توہے، لیکن ہم بولنے کے بعد کی آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت نے انہیں بدھ کو ہی رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف اتر پردیش میں درج تمام معاملے دہلی پولیس کو تحقیقات کے لیے سونپ دیے اور یوپی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایس آئی ٹی کو بھی ختم کرنے کی ہدایت دی۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے 72 سابق نوکر شاہوں کے ایک گروپ نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو خط لکھا ہے، جس میں فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مسلسل حراست میں رکھنے اور ان کی شخصی آزادی کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے سامنے مساوات کے آئینی اصول کے پیروکار کے طور پر نوپور شرما اور محمد زبیر کے درمیان امتیازی سلوک کا مشاہدہ کرناانتہائی پریشان کن ہے۔
ویڈیو: 2018 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں ‘مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے الزام میں آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کوگرفتار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں وہ ایک ساتھ چھ مقدمات کا سامنا کر ر ہے ہیں۔ اس معاملے پر سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
دہلی پولیس کی جانب سے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کے خلاف درج چار سال پرانے ٹوئٹ کیس میں ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ صحت مند جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی تنقید کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295 اے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں دو اور سیتا پور، لکھیم پور کھیری، غازی آباد اور مظفر نگر ضلع میں ایک ایک کیس درج کیا گیا ہے۔ اتر پردیش پولیس نے ان معاملات کی تحقیقات کے لیے 12 جولائی کو ایک ایس آئی ٹی بھی تشکیل دی ہے۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے بعددہلی پولیس نے کہا تھا کہ اس ویب سائٹ کے ذریعے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کی مبینہ خلاف ورزی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ادارے پر بیرون ملک سے چندہ حاصل کرنے کا الزام تھا، جس کی اس نے تردید کی تھی۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ایک اور معاملے میں زبیر کو دہلی پولیس نے 27 جون کو گرفتار کیاہے۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر کی گرفتاری،ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمے اور ان کی حراست کے سلسلے میں نظر آنے والی واضح خامیوں پرسپریم کورٹ کے ایک سابق جج، ایک ہائی کورٹ کے جج اور وکیلوں نے سوال اٹھائے ہیں۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو پولیس نے پانچ دنوں تک حراست میں لے کر پوچھ گچھ کرنے کی مدت پوری کرنے کے بعد سنیچر کو دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا اور انہیں عدالتی حراست میں بھیجنے کی گزارش کی۔ پولیس نےکہا کہ آگےبھی پوچھ گچھ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ویڈیو: پچھلے چند دنوں میں دو واقعات رونما ہوئے۔گزشتہ 28 جون کو راجستھان کے ادے پورمیں دو افراد نے تیز دھار دار ہتھیارسےکنہیا لال نامی ایک درزی کو قتل کر دیا اور اس واقعے کاویڈیویہ کہتے ہوئے جاری کیا کہ وہ ‘اسلام کی توہین’ کا بدلہ لے رہے ہیں۔ وہیں، آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان واقعات کی پڑتال کرتی دی وائر کی رپورٹ۔
دہلی پولیس نے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کے 2018 میں کیے گئے جس ٹوئٹ کو ان کی گرفتاری کی وجہ بتایا ہے ، اس کے خلاف @balajikijaiin نامی ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے شکایت کی گئی تھی، پولیس نے عدالت میں کہا تھا کہ یہ کوئی گمنام اکاؤنٹ نہیں بلکہ ‘مخبر’ ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے 2018 کے ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیرسے پوچھ گچھ کے لیے حراست کی مدت میں چار دن کی توسیع کر تے ہوئے کہا کہ انہوں نے تحقیقات میں ‘تعاون’ نہیں کیا اور ان کے پاس سے ڈیوائس بر آمدکرنے کے لیے انہیں بنگلورو لے جایا جانا ہے۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے جس ٹوئٹ کو ‘مذہبی جذبات کو بھڑکانے والا بتانے کا دعویٰ کرتے ہوئےان کوگرفتار کیاگیا ہے، وہ معروف ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی کامیڈی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا ایک سین ہے، جس میں ‘ہنی مون ہوٹل’ کے حرفوں میں پھیر بدل کرتے ہوئے ‘ہنومان ہوٹل’ لکھا گیا تھا’۔
حکومت کے کارندے نصف صدی قبل کی ایمرجنسی اور اس کی زیادتیوں پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن اہل وطن کسی اعلانیہ ایمرجنسی کے بغیر اس وقت سے زیادہ بدتر حالات جی رہے ہیں۔
ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصر کرتی ہیں۔ لیکن اس بار یہاں ہمارے سامنےایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر/شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔
سنگاپور کی انفو کام میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ثقافت، کمیونٹی اور نوجوانوں کی وزارت اور وزارت داخلہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ فلم سنگاپور کی فلم کی درجہ بندی کے رہنما خطوط کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔
دہلی اسمبلی میں فلم کشمیر فائلز پر وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے بیان کے خلاف بی جے وائی ایم نے تیجسوی سوریہ کی قیادت میں 30 مارچ کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران بی جے وائی ایم کے ارکان نے بیریکیڈ توڑ کر وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے مین گیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ویڈیو: ‘کشمیر اور کشمیری پنڈت’ کتاب کے مصنف اشوک کمار پانڈے نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس بات چیت میں سمجھایا کہ 1990 میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آزاد ہندوستان کی سب سے بڑی ٹریجڈی میں سےایک تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح فلم کو اقلیتوں میں عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے انخلاء کا باعث بننےوالے حالات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تئیں نفرت کا جذبہ نہ رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دہلی فسادات اور گجرات 2002 کے فرقہ وارانہ تشدد کے لیے ذمہ دار حالات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہےحملوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔
واضح ہو کہ آئی اے ایس افسر نیاز خان نے ‘دی کشمیر فائلز’ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر ہوئےمسلمانوں کے قتل عام کو دکھانے کے لیے ایک فلم بنائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کیڑے مکوڑے نہیں بلکہ انسان ہیں اور ملک کے شہری ہیں۔
جس طرح سے وزیراعظم مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نے 1990 میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔
کپواڑہ ضلع سے نقل مکانی کرنے والے ایک ممتاز کشمیری پنڈت کارکن سنیل پنڈتا نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 20 مارچ کو فلم کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے دوران بی جے پی کارکنوں نے انہیں ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔