دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ملا ہے، جس سے پتہ چلے کے اس دن عمر خالد جائے واردات پر موجود تھے۔ حالانکہ جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ خالد کو ابھی جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مجرمانہ طور پر سازش کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
دہلی فسادات سے متعلق معاملے میں گرفتار کیے گئے ‘یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ’ کے خالدسیفی کا جیل سے اپنے گھر والوں کو بھیجا گیا خط۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈٹینشن نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر کی میڈیکل کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے انتہائی سنگین الزمات میں بھی فوراً گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان سے ان کی حراستی حالات کی ایک آزادانہ تحقیق یقینی بنانے کو کہا ہے۔
ویڈیو: شہریت قانون (سی اے اے )کے خلاف ہوئے احتجاج میں شامل صفورہ زرگر کو یواے پی اےکے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری اس وقت ہوئی تھی جب وہ حاملہ تھیں۔ اس کو لے کر ان کی گرفتاری پر سوال کھڑے ہوئے۔ صفورہ زرگر سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
دہلی فسادات کے ایک ملزم کے بیان سےمتعلق دستاویز لیک ہونے پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر آپ کے افسر نے اس کو لیک کیا تو یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے اور اگر اسے میڈیا نے کہیں سے لیا ہے تو یہ چوری ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں یہ جرم ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے سماجی کارکن ہرش مندر کی جانب سے دائر اس شکایت پر دہلی پولیس کو کارروائی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے جس میں پچھلے سال فروری میں لوگوں کو دنگے کے لیےمبینہ طو رپر اکسانے کے الزام میں بی جے پی رہنما کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔
جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالدنےالزام لگایا ہے کہ شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں ان کے خلاف بدنیتی کے ساتھ میڈیا مہم چلائی گئی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں ان کے ایک مبینہ بیان سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے دنگوں میں اپنی شمولیت کی بات قبول کر لی ہے۔ یہ غیرجانبدارانہ شنوائی کے ان کے حق کے تئیں تعصب ہے۔
شمال-مشرقی دہلی فسادات معاملوں میں یو اے پی اےکے تحت مقدمے کا سامنا کر رہے کئی ملزمین نے دعویٰ کیا کہ آرڈر کے باوجود جیل میں انہیں چارج شیٹ تک رسائی نہیں دی گئی۔ کچھ ملزمین نے دعویٰ کیا کہ اسے پڑھنے کے لیے انہیں مناسب وقت نہیں دیا گیا۔
گزشتہ سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےتشددکے دوران گوکل پوری اوردیال پوری علاقوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے معاملوں کے تین ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے مقامی عدالت نے کہا کہ ان کے نام نہ ایف آئی آر میں ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خصوصی الزام ہیں۔
ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے ذریعے کی گئی شناخت کا بہ مشکل کوئی مطلب ہے، کیونکہ بھلے ہی وہ واقعہ کے وقت علاقے میں تعینات تھے، پر انہوں نے ملزمین کا نام لینے کے لیے اپریل تک کا انتظار کیا، جبکہ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو 25 فروری 2020 کو دنگے میں مبینہ طور پر شامل دیکھا تھا۔
ویڈیو: سی اےاے، این آرسی اور لو جہاد کو لےکر مسلم مخالفت کی سیاست پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
دہلی پولیس نے لکھا ہے کہ عمر خالد سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے۔آپ کو بھی یہی لگتا ہے تو کم سے کم یہ مطالبہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس کے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکار کو پہچان لیتے ہیں۔
جے این یواسٹوڈنٹ یونین کے سابق رہنما عمر خالد کو شمال-مشرقی دہلی فسادات معاملے میں گزشتہ ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ پچھلے تین دن سے دانت درد کی شکایت کے بعد بھی تہاڑ جیل انتظامیہ نے کوئی علاج مہیا نہیں کرایا ہے۔
دہلی فسادات میں ملزم ایک شخص نے اپنے پڑوسیوں کے ذریعے ان کے گھر پر حملہ کرنے کاالزام لگایا تھا۔ پولیس نے ایسا کوئی جرم ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ خود کو بچانے کے لیےملزم یہ الزام لگا رہا ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائےگا، ان کو میں کہہ دوں، کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک کے ہر شہری کو 18سال کا ہوتے ہی سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔
مرکز اورریاستی سرکاروں میں کام کر چکےسابق ملازمین کے ایک گروپ‘کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ’کے زیر اہتمام بنی اس کمیٹی کےصدر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر ہیں۔ یہ دہلی فسادات کے سلسلے میں سرکار، پولیس اور میڈیا کے رول کی بھی کی جانچ کرےگی۔
دہلی سرکار کےمحکمہ داخلہ نے پانچ اکتوبر کو ایسے سات ویڈیو کلپ دہلی پولیس کو سونپے ہیں، جس میں سے کچھ میں دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران دو پولیس اہلکارمبینہ طور پر دنگائیوں کے ساتھ مل کر اینٹ اور انڈے پھینک رہے ہیں۔
دہلی پولیس نے کہا تھا کہ دہلی فسادات معاملے میں گواہی دینے والے 15گواہوں نے اپنی جان کو خطرہ بتایا ہے، جس کی وجہ سے عرفی ناموں کا استعمال کر کےان کی پہچان پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ حالاں کہ پچھلے دنوں دائر پولیس کی 17000صفحات کی چارج شیٹ میں ان سب کے نام پتے سمیت مکمل پہچان ظاہر کر دی گئی ہے۔
عدالت میں داخل دہلی پولیس کی ایک چارج شیٹ کے مطابق، ‘ہندو کٹر ایکتا’ نام کاوہاٹس ایپ گروپ مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی سے بدلہ لینے کے لیے 25 فروری کو بنایا گیا تھا۔
دہلی فسادات معاملے میں سامنے آئے دو وہاٹس ایپ گروپ میں سے ایک‘ہندو کٹر ایکتا گروپ’ہے، جہاں‘ملوں کو مارنے’کے دعوے کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ میں سی اےاےمظاہرہ،تشدد نہ کرنے اورآئین میں بھروسہ رکھنے کی باتیں ہوئی ہیں۔ دہلی پولیس نے دوسرے گروپ کے کئی ممبروں کو فسادات کی سازش میں ملوث بتایا ہے۔
ویڈیو: پچھلے کچھ وقتوں سے اپوزیشن کی آواز کو پارلیامنٹ اورپارلیامنٹ سے باہر دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔سی اے اےمخالف مظاہروں میں حصہ لینے والوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ انہیں دہلی فسادات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ان مدعوں پرسابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری سے د ی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
اٹھائیس سالہ الیاس کو پانچ مہینے سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ شمال -مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران دو اسکولوں کی ملکیت کوتباہ کرنے کے الزام میں ان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔
نتاشا نروال کی ضمانت منظور کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس کی جانب سے دکھائے گئے ویڈیو میں وہ نظر تو آ رہی ہیں، لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں دکھ رہا ہے، جو یہ اشارہ دیتا ہو کہ وہ تشدد میں شامل تھیں یا انہوں نے تشدد بھڑکایا ہو۔
آئی پی ایس افسروں نے دہلی پولیس کمشنر کو خط لکھ کر فسادات سےمتعلق تمام معاملوں کی غیرجانبداری سےدوبارہ جانچ کرانے کی گزارش کی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شہریت قانون کی مخالفت کر رہے لوگوں کو اس میں پھنسانا افسوس ناک ہے۔ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے ان پر الزام لگاناغیرجانبدارانہ جانچ کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔
گرفتاری پرکارکنوں کےایک گروپ نے بیان جاری کر کےدہلی پولیس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرامن سی اے اے مخالف مظاہروں کو نشانہ بنانے کے لیے پولیس اپنی متعصب جانچ کے ذریعے انہیں پھنسا رہی ہے۔
دہلی پولیس نے تین ملزم طالبعلموں کے بیانات کےسہارے دعویٰ کیا ہے کہ یوگیندریادو، سیتارام یچوری،جیتی گھوش،پروفیسراپوروانندجیسےلوگوں نےسی اے اےکی مخالفت کر رہے مظاہرین کو‘کسی بھی حد تک جانے کو کہا تھا’اور سی اے اے-این آرسی کو مسلمان مخالف بتاکر کمیونٹی میں ناراضگی بڑھائی۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے نام بطور ملزم شامل نہیں ہیں۔
پنجرہ توڑ کی ممبر دیوانگنا کلیتا کو دہلی فسادات کےسلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ضمانت ملنے کے بعد بھی انہیں رہا نہیں کیا جائےگا کیونکہ ان پر یواے پی اے کے تحت بھی ایک معاملہ درج ہے۔
دہلی کے چاندباغ علاقے کی رہنے والی فساد متاثرہ خاتون کا الزام ہے کہ انہوں نے دہلی پولیس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی، اس لیےپولیس اب انتقام کے جذبے سے کارروائی کر رہی ہے۔
دہلی فسادات سے متعلق معاملے میں گرفتار ہوئے جامعہ کے ایک اسٹوڈنٹ نے الزام لگایا ہے کہ پولیس حساس جانکاری میڈیا کو لیک کر رہی ہے۔ ان کی عرضی پر ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کے ساتھ کچھ میڈیااداروں کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے وضاحت جاری کرکے کہا کہ اس نے دیگر سرکاری محکموں کے ساتھ ووٹر لسٹ اور فوٹو شناختی کارڈ شیئر کرنے کے سال 2008 کے اپنے گائیڈ لائن سے کسی بھی طرح انحراف نہیں کیا ہے۔
شمال-مشرقی دہلی میں فروری مہینے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ہیٹ اسپیچ کے الزام میں پنجڑہ توڑ تنظیم کی ممبر دیوانگنا کلیتا حراست میں ہیں۔
دہلی فسادات کےمعاملے میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے پوچھ تاچھ کے بعد کئی میڈیا رپورٹس میں دہلی پولیس کی جانب سے لیک جانکاری کی بنیاد پر انہیں‘فسادات کا ماسٹرمائنڈ’ کہا گیا۔ مصدقہ حقائق کے بغیر آ رہی ایسی خبروں کا مقصد صرف ان کی امیج کو خراب کرکے ان کے خلاف ماحول بنانا لگتا ہے۔
گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ عآپ کےسابق کونسلر طاہرحسین نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں شامل ہونے کی بات قبول کرلی ہے۔حسین کے وکیل جاوید علی کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے کبھی اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا۔ پولیس کے پاس اپنے دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
دہلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہرحسین کو دہلی فسادات کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کیاہے۔ حالانکہ اس پورے معاملے میں حسین کے رول سے وابستہ حقائق کسی اورجانب اشارہ کرتے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اپوروانند نے بتایا کہ دہلی فسادات کے معاملے میں ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ ایک ایسااصول بنایا جا رہا ہے جہاں مظاہرین کو ہی تشدد کا ذریعہ بتایا جا رہا ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ جانچ پوری طرح سے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ ہو۔
دہلی پولیس نے فروری میں دہلی میں ہوئے فسادات کی مبینہ سازش کو لےکر عمر خالد پر سنگین الزام لگائے ہیں۔ خالد نے تمام الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ فسادات کے لیےاصل میں ذمہ دار لوگوں کو پکڑنے کے بجائے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد کو پھنسایا جا رہا ہے۔
دہلی سرکار نے اس سے پہلے دہلی پولیس کی جانب سے بتائے گئے وکیلوں کے ناموں کوقبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔ایل جی انل بیجل نے سرکار کے آرڈر کو خارج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے بھیجے گئے وکیلوں کے نام کو قبول کرنے کو کہا۔
خصوصی مضمون: فروری کےآخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں جو کچھ بھی ہوا اس کی اہم وجہوں میں سے ایک سینٹرل فورسز کو تعینات کرنے میں ہوئی تاخیرہے۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کہ تشدد25 فروری کو رات 11 بجے تک ختم ہو گیا تھا،سچ کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔
دہلی کابینہ کی میٹنگ میں وکیلوں کی تقرری کے سلسلےمیں دہلی پولیس کی تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ دنگا معاملے میں پولیس کی جانچ کو عدالت نے غیرجانبدارنہیں پایا ہے، اس لیے پولیس کے پینل کو منظوری دی گئی، تو معاملوں کی غیرجانبدارشنوائی نہیں ہو پائےگی۔
خصوصی مضمون: شمال مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کو ‘لیفٹ جہادی نیٹ ورک’کے ذریعےکروایا‘ہندو مخالف’فساد بتاکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سچائی کیا ہے؟