Censorship

ایمرجنسی  نے آئین کا قتل کیا تھا یا پچھلے 11 سال نے؟

پچیس جون کو ایمرجنسی کے 50 سال مکمل ہونے کے موقع پر ‘سمودھان ہتیا دِیوَس’ مناتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ 1975 میں جمہوریت کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تاہم، مودی حکومت کے گزشتہ گیارہ سال کے بارے میں بھی یہی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے حوالے سےسینئر صحافی ونود شرما اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ میناکشی تیواری کا تبادلہ خیال۔

صحافتی تنظیموں نے مجوزہ براڈکاسٹنگ سروسز بل کو ’سینسرشپ کا گیٹ وے‘ قرار دیا

نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دلی یونین آف جرنلسٹس اور آندھرا پردیش ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن نے کہا ہے کہ براڈکاسٹنگ سروسز بل ٹی وی چینلوں سے لے کرتمام طرح کے میڈیا مثلاً فلم، او ٹی ٹی، یوٹیوب، ریڈیو، سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ نیوز ویب سائٹس اور صحافیوں پر کنٹرول بڑھانے کی سمت میں ایک قدم ہے۔

براڈکاسٹنگ بل کا مسودہ ریگولیٹری عمل کو ہموار کرنے کے بجائے سنسرشپ نافذ کرنے کا خاکہ ہے

وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے مجوزہ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل، 2023 یا براڈکاسٹنگ بل کو سنسرشپ چارٹر کے طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جہاں ‘مرکزی حکومت’ آزاد خبروں کو سنسر بورڈ جیسے کسی دائرے میں لانا چاہتی ہے۔

’اس وقت مرکزی دھارے میں اندھی عقیدت کا احساس گامزن ہے، جس میں اختلاف رائے کی کوئی جگہ نہیں ہے‘

سینئر ادیب اشوک واجپئی نے بتایا ہے کہ انہیں دہلی میں منعقد ’ارتھ–دی کلچر فیسٹ‘ کی کویتا سندھیا میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے انہیں سیاسی یا حکومت پر تنقید کرنے والی نظمیں پڑھنے سے منع کیا۔ انہوں نے کہا، ہم اختلاف کرنے والے لو گ ہیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ہمیں جگہ دیتے ہیں یا نہیں۔

کلکتہ کا کولاژ بنانے والے رضوان اللہ ہمارے درمیان نہیں رہے…

رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔

ایمرجنسی کے سیاہ دن بنام اچھے دن …

جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔

موجودہ وقت میں فلمسازوں اور قلمکاروں کو خود پر ہی سینسر شپ لگانی پڑ رہی ہے: مہیش بھٹ

فلم -نو فاردس ان کشمیر کے ٹریلر ریلیز پر فلمساز مہیش بھٹ نے کہا کہ آج ایک فلم پروڈیوسر اور قلمکار کاغذ پر قلم چلانے سے پہلے دس بار سوچتا ہے کہ اس کو کیا لکھنا چاہیے ، سی بی ایف سی اس کو منظوری دے گا یا نہیں۔

میں نے ایمرجنسی تو نہیں دیکھی ،لیکن …

ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کیا ایمرجنسی کو دوہرانے کا خطرہ اب بھی بنا ہوا ہے؟

ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔

ممبئی ہائی کورٹ نے کہا؛ملک میں ایسی حالت پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ اپنی رائے بھی نہیں رکھ سکتے

نریندر دابھولکر اور گووند پانسرے کے قتل معاملے میں سماعت کر رہی عدالت نے کہا، ہم سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔ہم روزانہ ایسے واقعات پر فخر نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرمناک ہے۔ ممبئی :ممبئی ہائی کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ ہندوستان جیسے جمہوری‎ ملک […]