’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘
آج اگر فیض کی قرٲت ہورہی ہے توکچھ توہے جوکلامِ فیض کو تعصبات سے پرے قبولیت عطاکررہی ہے۔
صلاح بھائی نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی ہے اورجتنی بھی اذیتیں اورعذاب ہیں،سب اسی وجہ سے ہیں۔فن کارجب دکھ اذیت،عذاب سے گزرتاہے تو اس کی چیخ وکراہ کو کوئی کیوں نہیں سنتا؟
فیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔
انٹرنیٹ نے موبائل فون میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے، سو ہر کس و نا کس کے ہاتھ یہ جالِ جدید لگ گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا غالب کے نام سے بے تُکی باتیں نیٹ پر ڈال دیتا ہے۔
جون کے یہاں وجود کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔انہوں نے انسان کے وجود اور خود اپنی ذات کے سراب کو کھنگالنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ امروہہ صرف ایک قصبہ ہی نہیں تہذیب و تمدن کا گہواراہ بھی ہے۔یہاں ایک کہاوت سینہ بہ […]
ہندی شاعری میں جب کچھ بڑے شاعروں کی دھوم مچی تھی،عدم گونڈوی اپنے سننے اور پڑھنے والوں کو گاؤں کی ان تنگ گلیوں میں لے گئے جہاں زندگی کااستحصال ہو رہا تھا۔
یوم وفات پر خاص :سدا کا عاشق مزاج راج کپور اپنی فلموں میں سماجی برائیوں کے مد مقابل محبت کو لا کھڑا کرتا تھا۔ نا انصافیوں کے سامنے راج کپور کی فوج میں سپاہی نہیں بلکہ امن کا جھنڈا تھامے ، پیار کے ترانے گاتے عاشق ڈٹے نظر آتے ہیں۔
نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو کیونکہ اسے کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ جھنگ کےپرانے محلے میں رہنے والا ا سکول ماسٹر کا بیٹا کون تھا،انہیں صرف یہ رٹایا جا رہا ہے کہ وہ ایک قادیانی تھا اور قادیانی کافر ہوتے ہیں۔
میں مسلمانوں کو الگ سے اہمیت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے اندر زیادہ تر پچھڑے (پسماندہ) لوگ ہیں جیسے جلاہے، دھنیے۔ پانچ کروڑ میں یہ چار ساڑھے چار کروڑ پچھڑے مسلمان میں۔ میں ان کو اہمیت دیتا ہوں، پڑھائی لکھائی میں، غریبی میں، ہر معاملے میں۔ آج سے ٹھیک […]
رئیس امروہوی بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار شاعر تھے۔ نئی دہلی :آج ہی کے دن 1988کی شام جب رئیس امروہوی کراچی میں اپنے دولت کدےپرمطالعےمیں مصروف تھےتو انہیں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار دی تھی۔قلم کے اس مجاہد نے کبھی کہا تھا : قلم […]