کاس گنج میں سال 2018 میں مارے گئے چندن گپتا کے والدکہہ رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اس راستےپر نہیں جانا چاہیے جس پر ہندوتوایاقوم پرستی کے جوش وجنون میں ان کا بیٹا چل پڑا تھا۔ کیا ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس موت کے بعد یا اس کے بدلے جو چاہتے تھے، وہ نہیں ملا؟ یا وہ اس کے خطرے کو سمجھ پائے ہیں؟
ویڈیو: اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں ایک‘گمشدہ’لڑکی کےمعاملے میں حراست میں لیے گئے 22 سالہ نوجوان الطاف کی پولیس تھانے میں گزشتہ 8 نومبر کو موت ہو گئی تھی۔اس کو لےکر ایک ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ الطاف نے ٹوائلٹ کے نل کی ٹوٹی سے پھانسی لگاکر خودکشی کی ہے۔
وزیرمملکت برائے داخلہ نتیانند رائےنے لوک سبھا میں بتایا کہ گزشتہ تین سالوں میں پولیس حراست میں 1189 لوگوں کو اذیت جھیلنی پڑی۔ پولیس حراست میں اموات اور ہراسانی کے لیےپولیس کے خلاف ہوئی کارروائی کی تفصیلات مانگنے پر وزارت داخلہ نے کہا کہ پولیس اور عوامی نظم ونسق ریاست کے موضوع ہیں اس لیے ریاستی سرکاروں کو ایسے جرائم سے نمٹنے کا حق ہے۔
بدھ کودلت نوجوان کی موت ہونے کے بعد آج نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے از خود نوٹس لیتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
یہ معاملہ اتر پردیش کے امروہہ کا ہے۔ مرنے والے کی بیوی نے الزام لگایا ہے کہ پولیس کی پٹائی سے شوہر کی موت ہوئی اور پولیس نے ان کو رہا کرنے کے لیے رشوت مانگی تھی۔ معاملے میں 11 پولیس اہلکار معطل کیے جا چکے ہیں۔
دو سال سےزیادہ کے دھرنےکے بعد کئی سیاسی جماعتوں کے نمائندے جوان سے ملنے پہنچے اور مرکز سے مداخلت کی مانگ کی۔