گزشتہ 31 جولائی کو نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد سے کسانوں نے ہریانہ میں فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیےعلاقے میں تین بڑی بیٹھکیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ کھاپ پنچایتوں کی اسی طرح کی 20 سے زیادہ بیٹھکیں ہو چکی ہیں۔ کسانوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لوگ آئندہ ریاستی اور پارلیامانی انتخابات سے قبل ‘پولرائزیشن کو روکنے’کے لیے متحد’ ہوگئے ہیں۔
اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے ہیں۔
بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کو فلموں اور نامور شخصیات کے خلاف غیر ضروری تبصرہ کرنے سےگریز کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان بھوپال کی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا سمیت بی جے پی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ‘پٹھان’ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے درمیان آیا ہے۔
شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون اسٹارر فلم ‘پٹھان’ کے خلاف بعض سماج دشمن عناصر کی مخالفت پر جاوید اختر نے کہا کہ کوئی سماج دشمن عناصر نہیں ہیں، وزیر ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے گیت پر سوال اٹھائے تھے۔
بالی وڈ فلموں کے بائیکاٹ کے حوالے سے اداکار سنیل شیٹی نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ ہیش ٹیگ بائیکاٹ بالی وڈ ٹرینڈ کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں کوشش کی جانی چاہیے۔ ہم دن بھر ڈرگس نہیں لیتے، ہم دن بھر غلط کام نہیں کرتے۔ اگر آپ اس بارے میں وزیر اعظم سے کہیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔
مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا، لیکن سکھوں نے آج اس حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کو پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ ارادہ انہیں یاد کرنے کا جتنا نہیں، اتنا مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو زندہ رکھنے کا ہے۔
فلم ‘پٹھان’ کے گانے ‘بےشرم رنگ’ پر تنازعہ کے درمیان معروف اداکارہ آشا پاریکھ نے کہا ہے کہ بکنی پر کوئی ہنگامہ نہیں تھا، یہاں نارنجی (بھگوا ) رنگ کی بکنی کو لے کر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ اب کسی اداکارہ نے نارنجی پہن لیا یا نام کچھ ایسا ہو گیا تو اس کو بین کیوں کر رہے ہیں؟یہ ٹھیک نہیں لگتا ہے؟
شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون اسٹارر فلم ‘پٹھان’ کے گانے ‘بے شرم رنگ’ پر جاری تنازع کے درمیان رتنا پاٹھک شاہ نے کہا کہ اس طرح کا برتاؤ کرنا کسی بھی معاشرے کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ فنون اور دستکاری کو اپنی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے کے لیے آزادی کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے، جو مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ اس کی مذمت کرتے ہوئے فلسفی، ممتاز دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہےکہ خالد کے خلاف جو ایک واحد ثبوت پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے تھے، جو ایک آزاد معاشرے میں شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
امریکی تارکین وطن کی تنظیموں کی جانب سے ‘ہندوستان میں فرقہ واریت’ کے موضوع پر منعقدہ ایک تقریب میں بھیجے گئے مختصر سے پیغام میں ممتاز دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے کہا کہ مغرب میں بڑھ رہےاسلامو فوبیانے ہندوستان میں مہلک شکل اختیار کرلی ہے، جہاں مودی حکومت منظم طریقے سے سیکولر جمہوریت کو ختم کر رہی ہے اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کر رہی ہے۔
گجرات کےشہرسورت میں12 سے 22 دسمبر کےدرمیان‘ٹیسٹ آف انڈیا’ریستوراں میں‘پاکستان فوڈ فیسٹیول’ ہونا تھا۔ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ بجرنگ دل کے کارکنوں نے بتایا کہ ریستوراں کے مالک نے معافی مانگ لی ہے۔
ہندوتواکو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارےاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے […]
فسادات نہ ہوئے ہوتے تو مودی اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ آخر فسادات کے دوران کچھ لوگوں نے ایک فرقے کے تئیں شدید بلکہ شدید ترین ’نفرت‘ کا اظہار کیوں کیا؟ اور کیا ’نفرت‘ میں اچانک ہی شدت آئی تھی یا بتدریج اور کیا اس میں کبھی کوئی کمی بھی آسکتی ہے؟ ریواتی لعل نے تین بنیادی کرداروں پر ساری توجہ مرکوز کرکے مذکورہ سوالوں کے جواب دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ایک طرف ہندتوا کے علمبردارگائے کو بچانے کے نام پر کسی بھی حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر طرف بارہا بیف کو مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور گئوکشی کو جاری رکھنے کی حمایت میں کھل کر بیانات بھی دیتے ہیں۔
محبت میں جان گنوانے والے انکت کے والدین رمضان پر افطار پارٹی دینے جا رہے ہیں۔وہ اس پارٹی کے ذریعے محبت اور بھائی چارہ کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
فرقہ پرستی سے اس لئے مت لڑئیے کہ کانگریس بی جے پی کرنا ہے۔ یہ پارٹیاں یا تو خاموش رہکر فرقہ پرستی پھیلاتی ہیں یا پھر کھلےعام۔ ان کے آنے جانے سے یہ لڑائی کبھی انجام تک نہیں پہنچتی ہے۔
وہ ساری نفرت بھری باتیں جو ایک دوسرے کے کھان پان، رہن سہن اور اخلاقیات کے بارے میں پہلے اتنی شدت سے نہیں سنی جاتی تھیں، اب ان باتوں میں ؛’ہم سب،اُو سب ،ای لوگ اُو لوگ ، اوکنی کے ‘ زیادہ اثردار ہونے لگا ہے۔
یہ نفرت اور تشدد، بہاری سماج کو گہرا زخم دینے والا ہے۔ سڑکوں پر اترے لوگوں کے تیور دیکھئے۔ اس تیور میں نفرت کی گرمی دیکھئے۔ ان کی چال، ان کے ہاتھ سے اٹھتی تلوار، ہاکی سٹک اور منھ سے نکلے قول اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
اگر واقعی ہندوستان میں شدت پسندی اور اقلیتوں کے تئیں اکثریتی فرقہ کی بیزاری پر لگام لگانی ہے تو اس نفرت کے بنیادی ماخذ یعنی نصابی کتب کو بدلنا ہوگا۔
ایک مسلم لڑکی کی حالت پر ایک قومی سطح پر جانےپہچانے چہرے کا یوں رونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مودی اور ان کے بھگوا حامیوں کی پہنچ سے پرے بھی ایک ہندوستان ہے۔
انکت کے والد کو ہمارا سلام۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انکت کے والد نے اپیل نہ کی ہوتی تو آج دہلی کاس گنج میں تبدیل ہو چکی ہوتی۔انہوں نے در اصل ہندوستا ن کی روح کو مجروح ہونے سے بچا یا ہے۔ انکت کی […]
جس سماج میں محبت کے خلاف اتنی ساری دلیل ہوں، اس سماج کو انکت کے قتل پر کوئی غم نہیں ہے، وہ فائدے کی تلاش میں ہے۔
بیدبا فیلسوف نے اپنی چپی توڑی اور کہا ،سن اُو راجن اسلاف کے قصے اور کہانیاں اس لئے بیان کی جاتی ہیں کہ آنکھ والے عبرت حاصل کر سکیں۔ جب کلیلہ نے بیدبا فیلسوف سے پوچھا کہ گروور ‘راج دھرم’ کیا ہوتا ہے؟ تو بیدبا نے کہا ہے […]