رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
سال 1985 بیچ کے آئی اے ایس افسرجے سی مرمو کے استعفیٰ کی وجہ پر کوئی آفیشیل بیان نہیں آیا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں سی اے جی بنایا جا سکتا ہے۔
گر چہ لگتا تھا کہ آبادی کے تناسب کو بگاڑنے میں کئی سال لگ جائیں گے اور امید تھی کی اس دوران تاریخ کا پہیہ پلٹ کر شاید کشمیری عوام کی مدد کو آئےگا، مگر باہری افراد کی اتنی بڑی تعداد کو اگر یک مشت شہریت دی جاتی ہے تو آباد ی کا تناسب راتوں رات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
جموں و کشمیرانتظامیہ کے حکام نے بتایا کہ پرتشددمظاہروں کےخدشات کے مدنظرسرینگر اور گھاٹی کے دوسرے حصوں میں کرفیو لگایا گیا ہے، کیونکہ علیحدگی پسنداور پاکستان اسپانسرڈتنظیمیں پانچ اگست کو یوم سیاہ منانے کامنصوبہ بنا رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر نامکمل ہے اور وہ انہیں عزت کے ساتھ واپس لانے کی کسی بھی پیش رفت کی حمایت کریں گے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے پچھلے سال پانچ اگست کو جموں کشمیر کاخصوصی ریاست کا درجہ ختم کیے جانے کے بعد سے ہی جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔
سال 1976 میں آئین کی تمہید میں‘سوشلزم’اور‘سیکولر’لفظ42ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڑے گئے تھے۔ اب دو وکیلوں نے انہیں ہٹانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم ہندوستان کے تاریخی اورثقافتی موادکے منافی تھا۔
پی ڈی پی رہنما نعیم اختر اور نیشنل کانفرنس رہنما ہلال لون کو پچھلے سال پانچ اگست کو جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ہٹانے کے بعد انتظامیہ نے حراست میں لیا تھا۔ اب پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی مین اسٹریم کی آخری رہنما ہیں، جنہیں پی ایس اے کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹنے کے بعد سے سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کانگریس کے سینئررہنماسیف الدین سوز نظربند ہیں۔ ان کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں داخل حبس بے جا یعنی ہیبیس کارپس کی درخواست میں الزام لگایا کہ ان کے شوہر کوپی ایس اے کے تحت گھر میں ہی نظربند کرنے کی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی ہے۔
آئی اے ایس کی نوکری سے استعفیٰ دینے کے بعد جموں اینڈ کشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی بنانے والے شاہ فیصل جموں وکشمیر کاخصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد سے نظربندی میں ہیں اور ان پر اس سال فروری میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔
پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ملزم بنائے گئے نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی کی نظربندی بھی تین مہینے بڑھا دی گئی ہے۔ جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرح انہوں نے بھی نظربندی میں نو مہینے بتائے ہیں۔
حکام نے کہا کہ جن لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے، ان میں کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچرنگ فیڈریشن اور کشمیر اکانومک الائنس کے چیف محمد یاسین خان کا نام بھی شامل ہے۔
جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو رہا کئے جانے کے بجائے انہیں ان کے گھر میں منتقل کرنے کے آرڈر کی سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مخالفت کرتے ہوئے ان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔
مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کے ریاستی اسمبلی ممبر پنشن قانون میں ترمیم کیا ہے، جس کے تحت سابق وزرائے اعلیٰ کو اب بنا کرایہ دیے مکان، رہائش کی سجاوٹ پر خرچ، مفت ٹیلی فون کال، مفت بجلی، کار پٹرول، طبی سہولیات، ڈرائیور اور نجی اسسٹنٹ وغیرہ نہیں ملیں گی۔
سرکار نے یونین ٹریٹری جموں وکشمیر کے لیے نئی ڈومیسائل پالیسی کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق جس شخص نے یہاں پر پندرہ سال گزارے ہیں یا سات سال پڑھائی کی ہے اور 10ویں اور 12ویں کے اگزام یہاں کے کسی مقامی انسٹی ٹیوٹ سے دیا ہے، وہ یہاں کا باشندہ ہوگا۔
جموں کشمیر انتطامیہ کے ذریعے سرینگر کی سینٹرل جیل میں پی ایس اے کے تحت بند 14 قیدیوں کی رہائی سمیت کل 31 قیدیوں پر لگا پی ایس اے ہٹایا گیا ہے۔
گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے عمر عبداللہ نے 232 دن حراست میں گزارے۔ اس سے پہلے فاروق عبداللہ کو 13 مارچ کو رہا کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو ابھی بھی پبلک […]
آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹاتے ہوئے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے گزشتہ سال پانچ اگست کے فیصلے کےبعد سے ہی سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حراست میں ہیں۔
مرکزی حکومت کے ذریعے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو ریاستوں میں باٹنے کے فیصلے کے بعد سے ہی پچھلے سات مہینے سے زیادہ وقت سے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ حراست میں تھے۔
مرکزی وزیرجی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے بعد 396 لوگوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
23 جنوری کی شنوائی کے دوران آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو رد کئے جانے کے جواز کو چیلنج دینی والی عرضیوں کو پیش کرنے والے وکیلوں نے مانگ کی تھی کہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کو چیلنج دینے والے معاملوں کو سات ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیجا جائے کیونکہ آرٹیکل 370 سے جڑے پچھلے دو فیصلے پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعے دیے گئے تھے اور دونوں میں تنازعہ تھا۔
کانگریس رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے ابراہمز پر ہوئی کارروائی کو درست ٹھہراتے ہوئے انہیں پاکستان اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ بتایا ہے۔
شاہ فیصل کو گزشتہ سال 14 اگست میں دہلی ایئر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیے جانے کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ پچھلے سال اگست میں ریاست کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر نظربند ہیں۔
جموں وکشمیر کے سابق ایم ایل اے اور سینئرسی پی ایم رہنما یوسف تاریگامی نے ریاست کے بڑے رہنماؤں کی حراست کو لےکر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر جموں وکشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو حکومت وہاں الیکشن کیوں نہیں کراتی۔
آج جب شنوائی شروع ہوئی تو تین ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس موہن شانتاناگودر نے خود کو اس کی شنوائی سے الگ کر لیا۔ بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے پی ایس اے کے تحت عمر عبداللہ کی حراست کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے خلاف پی ایس اے لگانے کے لئے جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں ان کی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہیں، خطرناک سازش رچنے کی اہلیت کی وجہ سے سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو’ڈیڈی گرل‘اور’کوٹا رانی‘کہا گیاہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت نظربند کرنے کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے ان کی فوراً رہائی کی مانگ کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں پر بھی اس قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس کے سنیئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے سرتاج مدنی شامل ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کہا کہ کشمیر کوخصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل370 کوختم کرنے کا سرکار کا فیصلہ ایک ایسا مدعا تھا جس کی وجہ سےسنویدھان کافی چرچہ میں رہا اور اس نے اپنی طرف لوگوں کا دھیان کھینچا۔
جن 26 لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں، جنہیں اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
سالانہ ہیومن رائٹس رپورٹ کہتی ہے کہ 662 لوگوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ہیبیس کارپس عرضی داخل کی اور اپنے خلاف لگائے گئے پی ایس اے کو رد کرنے کی مانگ کی۔
جموں و کشمیر کےحکام نے بتایا کہ رہا کئے گئے پانچوں رہنما نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ہیں، جنہیں احتیاطاً حراست میں رکھا گیا تھا۔ 5 اگست سے سابقہ ریاست کےتین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مین اسٹریم اور علیحدگی پسند خیمے کے سینکڑوں رہنماؤں کو احتیاطاً حراست میں رکھا گیاہے۔
فاروق عبداللہ نے یہ خط تھرور کی طرف سے اکتوبر میں لکھے گئے خط کے جواب میں لکھا ہے۔ عبداللہ نے تھرور کا شکریہ اد اکرتے ہوئے کہا کہ مجھے مجسٹریٹ کی طرف سے خط تاخیر سے ملا۔
پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن پی ڈی پی کے راجیہ سبھا ممبروں نے کشمیر میں صورت حال معمول پر لانے کی مانگ کرتے ہوئے خصوصی درجہ ختم کئے جانے کی مخالفت کی۔ پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی 5 اگست سے نظربند ہیں۔
کانگریس ، ڈی ایم کے اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبد اللہ کی نظربندی کی مخالفت کی اورلوک سبھا اسپیکر سے ان کی فوری رہائی کا حکم دینے کی درخواست کی۔
پی ڈی پی چیف نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے سجاد لون، پی ڈی پی رہنما وحید پارہ اور سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کو سرکاری ٹھکانوں میں شفٹ کرنے کے دورا ن ان سے بدسلوکی کی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہےکہ سجاد لون کو ڈرایا دھمکایا گیا اور انہیں برہنہ ہونے کے لیے کہا گیا۔
گزشتہ اکتوبر ماہ میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پانچ اگست سے اب تک 9 سے 17 سال کے 144 نابالغوں کو حراست میں لیا گیا۔
جموں کشمیر انتظامیہ نے 450 سے زیادہ کاروباریوں،صحافیوں، وکیلوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک فہرست تیار کی ہے، جو کہ ایک طے شدہ مدت کے دوران غیر ملکی سفر نہیں کر سکیں گے۔
کشمیر کے نامور مؤرخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ، نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیامان و ماہر قانون جسٹس (آر) حسنین مسعودی اور مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے دی وائر اردو سے بات کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی تاریخ، اہم واقعات، خصوصی پوزیشن اور بی جے پی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر پر مرتسم ہونے والے اثرات پر بات کی۔