کیا کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے؟کیا یہ خونی لکیرمٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوں کے جماؤ اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی؟ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، توہندوستان اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟
چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو بیجنگ میں ایک اجلاس میں بھروسہ دلایا کہ عالمی اور علاقائی حالات میں تبدیلی کے باوجود چین اورپاکستان کی دوستی اٹوٹ اور چٹان جیسی مضبوط ہے۔
کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیے دھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔
بیشتر ملکوں کو اب یہ باور ہوگیا ہے کہ مودی حکومت کا مقصد دہشت گردی کے تدارک کے بجائے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اقتصادی اور سیاسی طور پر لمحاتی فائدہ حاصل کرنا ہے ،اورمیڈیا کے ذریعے اپنے ملک میں واہ واہی لوٹناہے۔
رپورٹ کے مطابق، عمران خان کی تقریر کے فوراً بعد کشمیر میں سینکڑوں شہری گھروں سے نکل آئے اور انہوں نے عمران خان اور کشمیر کی آزادی کی حمایت میں نعرے لگائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس ميں پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے اپنے جذباتی خطاب ميں اسلاموفوبيا، عالمی سطح پر دہشت گردی، افغان جنگ اور کشمير ميں ہندوستانی اقدامات سميت کئی اہم عالمی امور پر گفتگو کی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانیوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو کشمیر کے لوگوں پر کارروائی کرنے کے لئے محض ایک بہانے کی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ ہمارے کئی وزیر پی او کے پر حملہ کر اس کو واپس لینے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر پی او کے اگلا ہدف ہے تو ہم اس کو جموں و کشمیر کی ترقی کی بنیاد پر لے سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا یہ تبصرہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان جوہری ہتھیاروں کے ’ پہلے استعمال نہیں ‘ کرنے کے اصول پر’پوری طرح پرعزم ‘ہے لیکن مستقبل میں کیا ہوگا یہ حالات پر منحصر کرےگا۔
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بی جے پی کی جن آشیرواد ریلی کو ہری جھنڈی دکھانے سے پہلے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا استعمال کر کے ہمارے ملک کو توڑنا چاہتا تھا۔ لیکن ہمارے 56 انچ کے سینے والے وزیر اعظم نے ملک کو دکھا دیا ہے کہ فیصلہ کیسے لیا جاتا ہے۔
کیا امریکہ ہماری موجودہ عالمی تنہائی میں کچھ ہاتھ بٹائے گا یا پھر سو پیاز اور سو جوتے ہی ہمارا مقدر رہیں گے؟ کیا اس سب کا ہماری مقتدرہ نے جائزہ لیا ہے؟ یا ہم فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرواتے رہیں گے اور عمران خان دوسرے ورلڈ کپ سے دل بہلاتے رہیں گے؟
جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے، نریندر مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے رشتے مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اچانک تجارت معطل کرنے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان تو ہوا ہی ہے، پونچھ اور اوڑی کے سینکڑوں نوجوانوں سے روزگارچھن گیاہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ ،ان کی حکومت کی پالیسی یہی ہے کہ پاکستان کی زمین پر کسی کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین پر پنپ رہی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے ایسا نہ کرنے کی صورت میں بات چیت کی تجویز سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
حکمراں بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکر اور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔
عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو ہندوستان کو ایسا مخالفانہ ردعمل ظاہر کرنے کا موقع دے سکتی ہو جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو منظم اور متحدہ کرنے کا کام لے سکے۔