اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
بتادیں کہ 17 جنوری 2018 کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں ایک آٹھ سالہ بچی کی لاش ملی تھی۔ میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل سے قبل لڑکی کے ساتھ کئی بار گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ جون 2019 میں اس کیس کے کلیدی ملزم سانجی رام سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو قصوروارٹھہرایا گیا تھا۔
کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو 18 اکتوبر کو دہلی کے ہوائی اڈے پر ویزا اور ٹکٹ ہونے کے باوجود روک دیا گیا تھا۔ وہ پولٹزر پرائز کی تقریب میں شرکت کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔
کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو نے بتایا تھا کہ انہیں قانونی طور پرصحیح ویزا اور ٹکٹ ہونے کے باوجود دہلی ہوائی اڈے پر نیویارک جانے سے روک دیا گیا۔مٹو خبررساں ایجنسی ‘رائٹرس’کی اس ٹیم کا حصہ تھیں جسے ہندوستان میں کووڈ–19کی کوریج کے لیے ‘فیچر فوٹوگرافی’ کے زمرے میں پولٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔
پولٹزر ایوارڈیافتہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو نے منگل کے روز کہا کہ انہیں ویزا اور ٹکٹ ہونے کے باوجود دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا گیا۔ وہ پولٹزر پرائز کی تقریب میں شرکت کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔ اس سے قبل جولائی میں انہیں پیرس جانے سے روکا گیا تھا۔
جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل— گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔
نومبر 2020 میں زی نیوز کی ایک نشریات میں شہلا رشید کے والد کا انٹرویو دکھایا گیا تھا، جس میں انہوں نے شہلا پر دہشت گردانہ فنڈنگ سے متعلق سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔ شہلا نے دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں مطالبہ کیا ہے کہ چینل ان سےغیرمشروط معافی مانگے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، 2021 میں سیڈیشن ، آفیشیل سیکرٹس ایکٹ اور یو اے پی اے سمیت ملک کے خلاف مختلف جرائم کے الزام میں 5164 معاملے، یعنی ہر روز اوسطاً 14 معاملے درج کیے گئے۔ پچھلے سال ملک میں سیڈیشن کے کل 76 اور یو اے پی اے کے 814 معاملے درج کیے گئے تھے۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
سال 2022 کے لیے ‘فیچر فوٹوگرافی کے زمرے’ میں پولٹزر ایوارڈجیت چکیں کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو ہندوستان سے فرانس کے لیے اڑان بھرنے والی تھیں۔ ان کے پاس یہاں کا ویزا بھی تھا، اس کے باوجود امیگریشن حکام نے کوئی وجہ بتائے بغیران سے کہا کہ وہ بین الاقوامی سفر نہیں کر سکتی ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ شاہ فیصل نے اپنے تمام سابقہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیے ہیں، جو مرکزی حکومت کی تنقید میں لکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر موجودہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے زبردست حامی نظر آ رہے ہیں۔ ان دنوں وہ اکثر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تقاریر، بیانات اور اعلانات کو شیئر کر رہے ہیں۔
نومبر 2020 میں زی نیوز کی ایک نشریات میں شہلا رشید کے والد کا انٹرویو دکھایا گیا تھا، جس میں انہوں نے شہلا پر دہشت گردانہ فنڈنگ سے متعلق سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔این بی ڈی ایس اے نے یہ کہتے ہوئے کہ اس نشریات میں غیرجانبداری کا فقدان تھا، چینل سے اس کی ویب سائٹ سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے اس ویڈیو کو ہٹا نےکوکہا ہے۔
این آئی اے نے 2017 میں ٹیرر فنڈنگ کا یہ معاملہ درج کرکے کشمیر کے 17 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ عدالت نے کشمیری صحافی کامران یوسف، وینڈر جاوید احمد اور علیحدگی پسند رہنما آسیہ اندرابی کو بری کر دیا ہے۔ باقی 14 ملزمان کے خلاف آئی پی سی اور یو اے پی اے کے تحت الزامات طے کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
شوپیاں کےایگزیکٹیو مجسٹریٹ نےگرفتاری وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوہر گیلانی لگاتارعوامی امن وامان کو متاثرکر رہے ہیں۔ انہیں 7 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔
پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے تجاوزات ہٹانے کی مہم نے علاقے میں احتجاج کو ہوا دے دی ہے۔ ایسےالزامات ہیں کہ انتظامیہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیےچنندہ طور پر کارروائی کر رہی ہے۔
کٹھوعہ ریپ اور قتل معاملے میں قصوروار پولیس اہلکار کو ان کی پانچ سال کی جیل کی سزا مکمل ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا اور عدالت نے ان کی باقی بچی سزا بھی رد کر دی ہے۔
سال 2019 کے لیےگورننس اور پالیٹکس کےزمرے میں’ڈیجیٹل میڈیا’ اور ‘براڈکاسٹ میڈیا’ گروپ میں دی وائر ہندی کے رپورٹر دھیرج مشرا اور فری لانس صحافی سیمی پاشا کورام ناتھ گوئنکا جرنلزم ایوارڈ دیا گیا ہے۔ چار سال کے سفر میں دی وائر ہندی کے رپورٹر کو ملا یہ دوسرا رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ ہے۔
جموں و کشمیر کی راجدھانی سری نگر کے رنگ ریتھ علاقے میں گزشتہ13 دسمبر کوہوئی گولی باری میں دو دہشت گرد مارے گئے تھے۔اس کے خلاف خواتین نےمظاہرہ کیاتھا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں اور ان ہلاکتوں کے حوالے سے سرکاری بیانات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
سری نگر میں 24 نومبر کی شام پولیس انکاؤنٹرمیں تین مشبہ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا تھا، لیکن مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جن لڑکوں کو پولیس نے انکاؤنٹر میں مارا، وہ نہتے تھے اور سڑک کنارے کھڑے تھے۔
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
گزشتہ15نومبر کو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں ایک شاپنگ کمپلیکس میں دہشت گردوں سے انکاؤنٹر کے دوران دو مشتبہ دہشت گردوں کی موت کے ساتھ ہی دو شہریوں کی بھی موت ہوئی تھی ۔ ان میں سے ایک شاپنگ کمپلیکس کے مالک محمد الطاف بھٹ اور دوسرے ڈینٹسٹ ڈاکٹر مدثر گل شامل ہیں۔ پولیس نے دونوں کےدہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ ان کے اہل خانہ کاالزام ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کا استعمال ‘ہیومن شیلڈ’کے طور پر کیا۔
یہ واقعہ کلگام ضلع میں پیش آیا۔یہ جنگجو تنظیم ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’کے بانی عباس شیخ کا آبائی ضلع ہے، جس نے سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں رہنے والے مقامی اور غیر مقامی اقلیتوں پر حالیہ حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری قبول کی ہے۔ رواں ماہ میں اب تک شہریوں کو نشانہ بنانے والی فائرنگ میں11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جموں وکشمیر میں گزشتہ چھ دنوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سات شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ سرینگر میں ہلاک ہوئے۔مہلوکین میں سے چار اقلیتی کمیونٹی سے ہیں۔سات اکتوبر کو سرینگر میں پرنسپل سپندر کور اور ٹیچر دیپک چند کوہلاک کر دیا گیا۔ پانچ اکتوبر کو کشمیری پنڈت کمیونٹی کے معروف کیمسٹ ماکھن لال بندرو سمیت تین لوگوں اور دو اکتوبر کو دو شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے مگر ہندوستان میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پریش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔
سابق حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پہلے جموں وکشمیر پولیس اس بات پر رضامند ہوئی تھی کہ ان کے اہل خانہ ان کی تجہیز وتکفین کے انتظامات کر سکیں گے، لیکن بعد میں پولیس ان کی لاش لے کر چلی گئی۔
سید علی شاہ گیلانی طویل عرصے سےعلیل تھے۔حریت کانفرنس کے بانی رکن رہے گیلانی نے سال 2000 کی شروعات میں تحریک حریت کا قیام کیا تھا، جس کو انہوں نے جون 2020 میں چھوڑ دیا تھا۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس طرح ایف آئی آر درج کرنا صحافی کو ‘چپ کرانے’ کا طریقہ تھا۔ صحافی کی ایک رپورٹ 19اپریل2018 کو جموں کےایک اخبار میں شائع ہوئی تھی، جو ایک شخص کو پولیس حراست میں ہراساں کرنے سے متعلق تھی۔ اس کو لےکر پولیس نے ان پر کیس درج کیا تھا۔
بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر کےمطابق،گزشتہ دو سالوں میں ان 23 لوگوں میں سے 12رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل کشمیر وادی اور 11 کا جموں میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے اکیلے نو بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کاقتل گزشتہ ایک سال میں کلگام ضلع میں ہوا ہے، جو باعث تشویش ہے۔
جموں وکشمیر کے باندی پورہ ضلع کے ندیہال گاؤں کا معاملہ۔ الزام ہے کہ گزشتہ14 جولائی کو بشیر احمد بھٹ نام کے نوجوان نے اپنی دکان کے باہرآرمی ٹرک سے ایک بزرگ خاتون کو کچلے جانے کےواقعہ کا ویڈیو بنایا تھا، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا تھا۔ اسی ویڈیو کی وجہ سے بشیر کو حراست میں لےکر اس پر این ایس اے لگایا گیا ہے اور جموں کی جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔
جس دن اخباراور ٹی وی چینل جیولن تھرو میں نیرج چوپڑا کے اس کارنامے کی تفصیلات چھاپ رہے تھے،جس دن نیرج کے پہلے کوچ نسیم احمد کشور انہیں یاد کر رہے تھے، اسی دن دہلی میں سینکڑوں لوگ ہندوستان کے نسیم احمد جیسے نام والوں کو کاٹ ڈالنے کے نعرے لگا رہے تھےاورہندوؤں کو ان کا قتل عام کرنے کا اکساوا دے رہے تھے۔ یہ لوگ بھی، نسیم احمدجیسے نام ایک طرح سے ہندوستان کے کشمیر ہیں، پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے!
جہاں مغربی اور عرب ممالک ان دنوں ہندوستان کی ناراضگی کے پیش نظر حکومتی سطح پر کشمیر سے دامن بچا کر ہی چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں، وسط ایشائی ممالک کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خاصے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔
کشمیری صحافی عرفان امین ملک نے جموں وکشمیر کی فلم پالیسی کے بارے میں سات اگست کی شام کو ایک ٹوئٹ پوسٹ کیا تھا۔ حالانکہ ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے دو منٹ کے اندر ہی انہوں نے اسے ڈی لٹ کر دیا تھا، لیکن جموں وکشمیر پولیس نے آٹھ اگست کو ملک کو جنوبی کشمیر کے ترال پولیس اسٹیشن بلایا، جہاں ان سے اس بارے میں پانچ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔
اس بیچ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 34 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 31 دسمبر 2019 تک ملک کی مختلف جیلوں میں478600قیدی بند تھے،جن میں144125 قصوروار ٹھہرائے گئے تھے جبکہ 330487 زیر سماعت و 19913 خواتین تھیں۔
دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔
اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
ویڈیو: کشمیر میں دو سکھ لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنےاور نکاح کا معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔ سکھ کمیونٹی کے لوگ کشمیر سے لےکر نئی دہلی تک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کشمیر میں آئے دن اغوا، دباؤ بناکر تو کبھی بہلا پھسلاکر لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر عارفہ خانم شیروانی نے جموں وکشمیر کے صحافیوں گوہر گیلانی، شاکر میر اور سماجی کارکن کنول جیت کور سے چرچہ کی۔
مارچ 2010 میں گجرات اے ٹی ایس نے 43 سالہ ایک این جی اوکارکن بشیر احمد بابا کو آنند سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کرنے اور 2002 کے فسادات سے ناراض مسلم نوجوانوں کوحزب المجاہدین کے لیے بھرتی کرنے کے لیےصوبے میں ریکی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ الزام ثابت نہ ہونے پر گزشہ دنوں انہیں رہا کر دیا گیا۔
پچھلے دو سالوں سے دنیا بھر میں ہندوستانی سفیر وہ نہیں کر پائے جو 24جون دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔