چھیانوے سالہ لال کرشن اڈوانی کو ایک ایسے وقت میں بھارت رتن دیا گیا ہے، جب ملک اگلے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کر رہا ہے اور نریندر مودی اس کے مرکز میں ہیں۔ بے رحمی سے درکنار کیے گئے اپنے ‘گرو’ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر نریندر مودی نے ایک بار پھر توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔
سریندر کمار یادو نے 30 ستمبر 2020 کو سی بی آئی کےخصوصی جج کے طور پر سنائے فیصلے میں1992 بابری انہدام معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام ملزمین کو بری کیا تھا۔ اب گورنر آنندی بین پٹیل نے انہیں ریاست کا تیسرا ڈپٹی لوک آیکت مقرر کیا ہے۔
نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
انٹرویو: ملک کے نامور ڈاکیومنٹری فلمسازآنند پٹوردھن نے 90 کی دہائی میں شروع ہوئی رام مندرتحریک کو اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’میں درج کیا ہے۔ بابری انہدام معاملے میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے مدنظر ان سے بات چیت۔
بابری مسجد انہدام کے وقت مرکزی داخلہ سکریٹری رہے مادھو گوڈبولے نے کہا ہے کہ مسجد گرانے کی سازش کی گئی تھی اور اسی بنیاد پر انہوں نے اس وقت کی اتر پردیش سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کی تھی۔
بابری مسجد انہدام معاملے کی شروعات اس بارے میں درج دو ایف آئی آر 197 اور 198 سے ہوئی تھی۔ پہلی ایف آئی آر انہدام کے ٹھیک بعد ایودھیا تھانے میں لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج ہوئی تھی اور دوسری جس میں بی جے پی، سنگھ اور باقی تنظیموں کے رہنما نامزد تھے۔
بابری مسجد انہدام کی جانچ کے لیے1992 میں جسٹس ایم ایس لبراہن کی قیادت میں لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیاتھا، جس نے سال 2009 میں اپنی رپورٹ سونپی تھی۔ کمیشن نے کہا تھا کہ کارسیوکوں کا اجتماع اچانک یا رضاکارانہ نہیں تھا، بلکہ منصوبہ بند تھا۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی سی بی آئی عدالت نے کہا کہ مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں حادثاتی تھا،غیرسماجی عناصرگنبد پر چڑھے اور اس کوگرا دیا۔ عدالت کے فیصلے پر اس معاملے کےگواہوں میں سے ایک رہے سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے تمام ملزمین کو بری کرنے کے بعد بی جے پی کےسینئررہنما مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ اب یہ تنازعہ ختم ہونا چاہیے اور سارے ملک کو عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے لیےتیاررہنا چاہیے۔اپوزیشن نے اس فیصلہ کوغیرمعقول بتایا ہے۔
خصوصی سی بی آئی عدالت نےاپنے فیصلے میں کہا کہ سی بی آئی کافی ثبوت نہیں دے سکی۔ بابری مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں تھا اورغیر سماجی عناصرگنبد پر چڑھے تھے۔
خصوصی سی بی آئی عدالت 6 دسمبر، 1992 کوایودھیا میں بابری مسجد انہدام معاملے میں 32 ملزمین کے بیان درج کر رہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی رہنما اورسابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، اتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اورسابق مرکزی وزیرمرلی منوہر جوشی کا بیان درج ہونا ابھی باقی ہے۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں اپنا بیان درج کرانے کے لیے رام ولاس ویدانتی، سینئر بی جے پی رہنما ونئے کٹیار، سنتوش دوبے اور وجئے بہادر سنگھ جمعرات کو لکھنؤ کی اسپیشل سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔
شہریت قانون کو لےکر 2003 اور اس کے بعد ہوئی بحث میں نہ صرف کانگریس اور لیفٹ بلکہ بی جے پی رہنماؤں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی نے بھی مذہبی طورپر مظلوم پناہ گزینوں کو لےکرمذہب کی بنیاد پر جانبداری نہ کرنے کی پیروی کی تھی۔
وشو ہندو پریشد کے پاس تین ہزار مسجدوں کی فہرست ہے جو اس کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کی خواہش میں ہے۔
بی جے پی کے سینئر رہنما کلیان سنگھ حال ہی میں راجستھان کے گورنر کے عہدے سے ہٹے ہیں۔ سی بی آئی نے کہا کہ چونکہ اب کلیان سنگھ گورنر کے عہدے سے ہٹ چکے ہیں اس لئے بابری مسجد انہدام معاملے میں ان کے خلاف کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔
اس معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگ ملزم ہیں۔
اس معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگ ملزم ہیں۔
بہار میں مہاگٹھ بندھن کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ اس بڑی ہارکے بعد بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کو بنائے رکھے۔ حالانکہ ابھی تو انتخاب کے بعد جیتن رام مانجھی نے تیجسوی کی قیادت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔
دوسرے مرحلے کی پانچ سیٹوں میں اس بار بھی مہاگٹھ بندھن آگے دکھائی دے رہا ہے۔یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے انتخاب سے ان معنوں میں الگ ہے کہ پہلے مرحلے میں جہاں تمام چار سیٹوں پر سیدھا مقابلہ ہوا وہیں اس مرحلے میں دو سیٹوں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔
بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اجئے اگروال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ سال 2014 میں کانگریسی رہنما سونیا گاندھی کے خلاف انتخاب لڑنے والے اگروال کو پارٹی نے اس بار رائےبریلی سے ٹکٹ نہیں دیا ہے۔
لالو پرساد یادو اپنی کتاب میں بتاتے ہیں؛ بہار کی تعمیر میں میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔
امیدواروں کے انتخاب کے لحاظ سے دیکھیں تو لالو کی غیر موجودگی میں کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ تیجسوی کی قیادت میں کوئی نیا آر جے ڈی سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف سنگین جرم میں قصوروار قرار دئے گئے رہنماؤں کی بیویوں (سیوان اور نوادہ)کو ٹکٹ ملا تو دوسری طرف امیدواروں میں جوان چہرے تقریباً غائب رہے۔
شتروگھن سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس آرائی ہے کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟
میگزین نے کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدو رپا کی ایک ڈائری کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ارون جیٹلی اور نتن گڈکری کو 150 کروڑ روپے ، راجناتھ سنگھ کو 100 کروڑ روپے ، لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو 50 کروڑ روپے دیے گئے ۔ اس کے علاوہ 250 کروڑ روپے کی ادائیگی ججوں کو کی گئی ۔
1999 میں این ڈی اے-1 نے 8 فیصدجی ڈی پی شرح نمو کے ساتھ اپنی پاری کی شروعات کی تھی، لیکن بعدکے تین مالی سالوں کے درمیان جی ڈی پی شرح نمو میں تیز گراوٹ دیکھی گئی۔ اس کی خاص وجہ زراعتی شرح نمو کا اوندھےمنھ گرکرصفر پر آنا تھا۔ یہی کہانی این ڈی اے-2 میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔