دس برسوں کی اسیری میں اجنبیت ،بیگانگی، علیحدگی اور زندگی کی صعوبتوں کے درمیان بھی جی این سائی بابا کے جینے کا عزم اور حوصلہ برقرار رہا۔ شاید انہی اقدار حیات کی بدولت انہوں نے صدیوں سے مظلوم قوموں کے جمہوری حقوق کے لیے اپنے غیر مشکوک کمٹ منٹ کو زندہ رکھا ہوگا۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے لئے مولانا نے جو جد جہد کی اور علاقہ کے لوگوں کوجس طرح اس تحریک سے وابستہ کیا وہ سیمانچل کی تاریخ کا زریں باب ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔
کلدیپ نیئر نے اپنے کاموں سے ایک پوری نسل کی ذہن سازی کا کام کیا۔ نو واردان صحافت میں ان کی خاص دلچسپی تھی۔ اس کا ندازہ ذاتی طور پر مجھے علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔
فخرالدین نے پوری زندگی سوشل ازم، گاندھی ازم اور بائیں بازو کے نظریات کو آگے لےکر جانے کا کام کیا۔ وہ اس نظریہ کے اندھے بھکت نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اس کا سخت تجزیہ بھی کیا۔
اُردوبک ریویو کے مدیر،محمد عارف اقبال سے اردو بک ریویو کی اشاعت ،اس کی غرض و غایت ،ریڈرشپ اور پبلشنگ انڈسٹری کی پسماندگی کے موضوع پر فیاض احمدوجیہہ کی بات چیت۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کی نئی نسل میں جاسوسی ادب میں اب کوئ بڑا نام نہیں ہے، اور خاص طور پر ہندوستان میں تو ڈٹیکٹو فکشن کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
جسٹس سچر اب ا س دنیا میں نہیں رہے مگر انصاف کے لیے جنگ اور بے باکی کے لیے دہلی میں لاہور کا دل رکھنے والا یہ شخص تاریخ میں امر رہےگا۔
اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔اگرمیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہی، جو چل سکتے ہیں اور جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے،جوکھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟
وہ ایک سیکولر دانشور تھے جو تاعمر نفرت اور تشدد کی سیاست کے سخت مخالف رہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ نظریات سے انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
مشہور شاعر اور ناظم مشاعرہ انور جلال پوری کی رحلت پر ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ونود دوا
مریم ابو ذہاب کو اردو سے خصوصی لگاؤ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کا سفر ان کے لئے کسی سفرِ عشق سے کم نہیں تھا جہاں اُنہیں اپنی پسندیدہ زبان کو استعمال کرنے اور اُس پر کام کرنے کا موقع ملتاتھا۔
ان کا ناول’ چھاڑن ‘ پڑھنے کے بعد ان سے کہا کہ یہ ناول آپ کی تمام کتابوں پر بھاری ہے۔ اب آپ کو قصّہ گوئی کے مکان میں بس جانا چاہیے اور شاعری کے کمرے کا دروازہ بند کر دینا چاہیے۔ سریندر اسنگدھ چلے گئے۔ سب کو ایک […]