مراکز پر اجتماعی طور پر نقل کا ماحول تھا۔ نگراں اور ممتحن کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ حکومت ہند کے ایک بڑے سائنسی ادارے میں بھرتی امتحان ہو رہا ہے۔ گجرات کی کمپنی ایڈوٹیسٹ کے ذریعے کرائے گئے امتحانات پر ملاحظہ کیجیے دی وائر کی تفتیش کی یہ تیسری قسط۔
نیٹ-یوجی معاملے میں سپریم کورٹ نے سوموار کو 30 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کی، جن میں امتحان میں بے ضابطگی اور نقل کا الزام عائد کرنے والی درخواستوں کے ساتھ ساتھ امتحان کو نئے سرے سے کرانے کی درخواستیں بھی شامل تھیں۔
احمد آباد کی ایڈوٹیسٹ کمپنی کو یوپی حکومت نے بلیک لسٹ کیا ہے، لیکن اب یہ پی ایم نریندر مودی کی قیادت والی سی ایس آئی آر میں بھرتی امتحان کے دوسرے مرحلے کا انعقاد کر رہی ہے۔ اس امتحان کے کچھ امیدوار پہلے مرحلے کے دوران ہوئے نقل کے الزام میں جیل میں ہیں۔
ایڈوٹیسٹ کے بانی سریش چندر آریہ ایک ہندو تنظیم کے صدر ہیں اور مودی ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو جیل بھی ہو چکی ہے، اس کے باوجود اسے امتحان کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں۔ دی وائر کی خصوصی پڑتال کی پہلی قسط۔
نیٹ یعنی این ای ای ٹی – یو جی 2024 کے امتحان کے معاملے میں بہار کی کریمنل انویسٹی گیشن یونٹ نے مشتبہ افراد کے پاس سے امتحان کی تاریخ (5 مئی) کو ہی کچھ جلے ہوئے کاغذ برآمد کیے تھے، جن کی جانچ سے پتہ چلا کہ ان کاغذات میں 68 سوال من و عن وہی تھے جو امتحان کے سوالنامے میں تھے۔ یہی نہیں بلکہ سوالوں کے سیریل نمبر بھی سوالنامے سے میل کھاتے ہیں۔
مہاراشٹر ملک کی سب سے بڑی معیشت والی ریاست ہے، لیکن برسوں سے سرکاری نوکری کی تیاری کرنے والے اس کے ہزاروں نوجوان شہری پیپر لیک یا کسی اور گھوٹالے کی وجہ سے امتحان رد ہونے کے بعد مایوس ہوکر خودکشی جیسے مہلک قدم اٹھا رہے ہیں۔
اتر پردیش میں نوجوانوں کے لیے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سرکاری نوکریوں کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کے امتحانات کا لمبا انتظار، پھر پیپر لیک کا مسئلہ اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہوجانا بھی اب ریاست میں عام سا واقعہ ہے۔
اتر پردیش میں پولیس کانسٹبل بھرتی کا پیپر لیک ہونے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب نوجوانوں کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے۔ بھرتی امتحانات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے واقعات کے پیش نظر نوجوان اکثر سڑکوں پر جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں، وہیں بھرتیوں کا طویل انتظار بھی ان کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں مقابلہ جاتی امتحانات کے پیپر لیک نہ ہوئے ہوں۔ اس کی شروعات 2017 میں یوپی پولیس کانسٹبل اگزام کے پیپر لیک سے ہوئی تھی، جس میں 1.20 لاکھ درخواست دہندگان نے شرکت کی تھی۔
گجرات کانگریس کے مطابق یہ بھرتی گھوٹالے سرکار کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے قریبی اسیت وورا کو ایک بدنام زمانہ گھوٹالہ کے بعد سلیکشن بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اسی طرح پیپر لیک معاملے میں جو پرنٹنگ پریس سرخیوں میں تھی، اس نے کبھی مودی کی کتاب بھی چھاپی تھی۔
اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام منعقد ریویو آفیسر (آر او) اور اسسٹنٹ ریویو آفیسر (اے آر او) کے امتحانات میں 10 لاکھ سے زیادہ امیدواروں نے شرکت کی تھی، جسے اب رد کردیا گیا ہے۔ وہیں، حال ہی میں 12 ویں بورڈ کے امتحان کے دو مضامین کے پرچے امتحان کے دوران وہاٹس ایپ گروپ میں شیئر کیے گئے تھے۔
نوجوان کی شناخت اتر پردیش کے قنوج کے رہنے والے برجیش پال کے طور پر کی گئی ہے۔ وہ حال ہی میں پولیس بھرتی کے امتحان میں شامل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر پیپر لیک سے پریشان تھے۔ اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک سوسائیڈ نوٹ میں انہوں نے اپنے اس قدم کے لیے بے روزگاری کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
تلنگانہ بی جے پی کے صدر بندی سنجے کمار نے کہا کہ یہ ریاست کی بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) حکومت کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی کے تلنگانہ دورہ کےلیے کیے جارہے انتظامات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ پارٹی نے کہا کہ سنجے کی گرفتاری حکمراں بی آر ایس میں خوف اور انارکی کی نشاندہی کرتی ہے۔
ریاست میں 17 نومبر کو جونیئر کلرک اور آفس اسسٹنٹ کی بحالی کے لیے امتحان ہوئے تھے۔ گاندھی نگر میں طلبا نے اس کاسوال نامہ لیک ہونے اور بے ضابطگی کا الزام لگاتے ہوئے بڑی تعداد میں مظاہرہ کیا اور امتحان رد کرنے کی مانگ کی۔ اس کے بعد پولیس نے مظاہرہ کر رہے طلبا کو حراست میں لے لیا۔
گزشتہ دنوں بارہویں کے اکاؤنٹ اور بزنس اسٹڈیز کے امتحانات کے پیپر لیک ہونے کی بھی خبریں میڈ یا میں آئی تھیں لیکن سی بی ایس ای نے اسکی تردید کی تھی ۔