چھیانوے سالہ لال کرشن اڈوانی کو ایک ایسے وقت میں بھارت رتن دیا گیا ہے، جب ملک اگلے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کر رہا ہے اور نریندر مودی اس کے مرکز میں ہیں۔ بے رحمی سے درکنار کیے گئے اپنے ‘گرو’ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر نریندر مودی نے ایک بار پھر توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔
ویڈیو: جب بھی مغربی اتر پردیش کی بات آتی ہے تو جاٹ اور مسلمانوں کا ذکر ہوتا ہے، کیونکہ یہاں دونوں کی اچھی آبادی ہے۔ مجموعی طور پردونوں برادریوں کے پاس 43 فیصد ووٹ ہے۔ مغربی یوپی میں بی جے پی کیا کرے گی؟ کیا اکھلیش کا جاٹ مسلم فیکٹر کام کرے گا یا بی جے پی کا 80 بنام 20 کا داؤ کام کرے گا؟ بتا رہے ہیں سینئر صحافی شرت پردھان ۔
ویڈیو: آئندہ انتخابات کی وجہ سے شدید سیاسی مفادات کے بیچ اتراکھنڈ میں بی جے پی کی قیادت اب لینڈ جہاد کے نام پر ووٹروں کو پولرائز کر رہی ہے۔ دی وائر نے اس مسئلے اور بی جے پی کے لیے اس کی اہمیت کے بارے میں ماہرین سےبات کی۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
وہ راہل گاندھی کی طرف امید سے نہیں دیکھ رہے ہیں، مگر وہ بی جے پی کی طرف اپنی پیٹھ موڑ سکتے ہیں۔
سنگھ اور بی جے پی میں دہشت گرد ہونے کے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھا رمیا کے بیان کے خلاف بی جے پی کا مظاہرہ۔ کہا کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت بنےگی۔
بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا کہ کرناٹک میں کانگریس کی سدھارمیّا حکومت کی الٹی گنتی شروع۔