پی ایم کیئرس فنڈ کے ریکارڈ کے مطابق، مالی سال 2019-20 کے دوران فنڈمیں 0.40 کروڑ روپے کا غیر ملکی عطیہ ملا، اس کے بعد 2020-21 میں یہ 494.92 رقم کروڑ روپے ہوئی اور 2021-22 میں 40.12 کروڑ روپے رہی ۔
دہلی ہائی کورٹ ‘پی ایم کیئرس فنڈ’کو آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت ‘سرکاری فنڈ’ قرار دینے کے مطالبے سے متعلق عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس کے بارے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں مرکز کی جانب سے ایک صفحے کا جواب داخل کیا گیا، جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئےعدالت نے مفصل جواب طلب کیا۔
وزارت داخلہ کی 2020-21 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 1990 اور 2020 کے درمیان جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی وجہ سے 14091 شہری اور 5356 سیکورٹی فورس اہلکار ہلاک ہوئے۔ کشمیری پنڈتوں کے علاوہ عسکریت پسندی کی وجہ سے کچھ سکھ اور مسلم خاندان کو بھی وادی سے جموں، دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں نقل مکانی کرنے کو مجبور ہونا پڑا۔
مئی 2020 میں ایک شخص نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری طلب کی تھی کہ کیا لاک ڈاؤن میں سیلون بند ہونے سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پراتنا ہی اثر پڑا، جتنا کسی عام شہری پرپڑا۔
آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور نے جموں و کشمیر پولیس اور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس دائر ایک درخواست میں کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور بازآبادی سے متعلق جانکاری مانگی تھی ۔ اس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ تشدد یا تشدد کی دھمکیوں کی وجہ سے وادی چھوڑکر نقل مکانی کرنے والے 1.54 لاکھ افراد میں سے 88 فیصد ہندو تھے، لیکن 1990 کے بعد سے تشدد میں مرنے والے زیادہ تر لوگ دوسرے مذاہب سے تھے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے باندہ ضلع میں صحافی اور آر ٹی آئی کارکن آشیش ساگر دکشٹ کو پولیس نے ہسٹری شیٹر بنا دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اب انہیں گرفتار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
گزشتہ21 دسمبر کو کسان اور آر ٹی آئی کارکن امرارام گودارا کو باڑمیر سے اغوا کیا گیا اور بے رحمی سے پیٹنے کے بعدقریب قریب موت کے گھاٹ اتار کران کے گھر کےپاس پھینک دیا گیا۔ لگاتارآر ٹی آئی اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بڑھتے ہوئے حملے احتسابی قانون سازی کی ضرورت کو نشان زدکرتےہیں۔
راجستھان کے باڑمیر ضلع کے ایک آر ٹی آئی کارکن پر ان کے آبائی گاؤں میں حملہ کیا گیا،ان کی حالت تشویشناک ہے۔انہوں نےکچھ عرصہ پہلے محکمہ پنچایتی راج میں گڑبڑی اور غیر قانونی شراب مافیاؤں کی شکایت کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پی ایم او کی جانب سے یہ جواب عدالت میں دائر ان عرضیوں کے سلسلے میں آیا ہے،جن میں پی ایم کیئرس فنڈ کو سرکاری قراردینے کامطالبہ کیا گیا ہے۔
ایک آر ٹی آئی درخواست میں پوچھا گیا تھا کہ صرف سرکاری محکموں کو مل سکنے والا جی اووی ڈاٹ ان ڈومین پی ایم کیئرس کو کیسے ملا۔سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں ہوئی شنوائی میں آئی ٹی کی وزارت کے حکام نے بتایا کہ انہیں پی ایم او کی جانب سےاس بات کا انکشاف کرنے سے روکا گیا تھا۔
مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے ایک میڈیکل کالج کا معاملہ۔آر ٹی آئی کارکن گوالیارواقع گجرا راجہ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس داخلے میں مبینہ دھاندلی کی جانچ چاہتے ہیں کہ باہری لوگوں نے دھوکہ دھڑی کرکے مقامی لوگوں کے کوٹے میں داخلہ حاصل کر لیا ہے۔
افواج کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ میں دی گئی رقم میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوج کی طرف سے 157.71 کروڑ روپے ہے، وہیں فضائیہ نے 29.18 کروڑ روپے اوربحریہ نے 16.77 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے۔
حال ہی میں عوامی کیے گئے پی ایم کیئرس ٹرسٹ کے دستاویز میں جہاں ایک طرف‘کارپوریٹ چندہ حاصل کرنے کےلیےاس کی تعریف سرکاری ٹرسٹ کے طور پرکی گئی ہیں، وہیں ایک کلاز میں اس کو پرائیویٹ ٹرسٹ بتایا گیا ہے۔
ویڈیو: آر ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے لگاتار یہ کہا گیا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چھ سالوں میں مودی سرکار نے آر ٹی آئی قانون کو بےجان کرکے بدعنوانی کے خلاف اس لڑائی کو کمزور کیا ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے بتا رہی ہیں سماجی کارکن انجلی بھاردواج۔
لوک سبھا میں اپوزیشن کےرہنماؤں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ پر لگاتار سوال اٹھانے پر بی جے پی رہنما کانگریس پرحملہ آور ہوتے رہے، ساتھ ہی کہا کہ پی ایم ریلیف فنڈگاندھی پریوار کی ذاتی ملکیت کی طرح کام کرتا ہے۔ حالانکہ پی ایم کیئرس فنڈ کی جوابدہی کو لےکر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آرٹی آئی قانون سے ملی جانکاری کے مطابق، او این جی سی نے سب سے زیادہ 300 کروڑ روپے، این ٹی پی سی نے 250 کروڑ روپے، انڈین آئل نے 225 کروڑ روپے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی(سی ایس آر) کا پیسہ چندہ کے طور پر پی ایم کیئرس فنڈ میں دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی میں کہا گیا تھا کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کاطریقہ کاربےحدخفیہ ہے، اس لیےاس میں ملنے والی رقم این ڈی آرایف میں ٹرانسفر کی جائے، جو پارلیامنٹ سے پاس کیے گئے قانون کے تحت بنایا گیا ہے اور ایک شفاف سسٹم ہے۔
حال ہی میں مرکزی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ2005 کے تحت بنائے گئے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ میں افراداور اداروں کے ذریعے چندہ دینےکو منظوری دی ہے۔ لیکن کووڈ 19جیسی آفت کے دور میں جب طبی سہولیات کی بہتری کے لیے اس میں جمع رقم کا استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں چندہ دینے کے بارے میں عوام کو بےحد کم جانکاری ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ میں پی ایم کیئرس کی تشکیل کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت ایک قانونی فنڈیعنی نیشنل ڈیزاسٹررسپانس فنڈ کے ہونے محض سے رضاکارانہ چندےکے لیے الگ فنڈکی تشکیل پر روک نہیں ہے۔
ویڈیو: بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ 2005-06 میں چین کی حکومت کی جانب سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو چندہ دیا گیا تھا، وہیں کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ میں کئی چینی کمپنیوں سے چندہ لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کانگریس ترجمان گورو ولبھ سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
پی ایم کیئرس فنڈ کا طرزعمل شفاف نہیں ہے اور اس کوآر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں چندہ دے رہا ہے اور اس جمع رقم کو کن کن کاموں میں خرچ کیا جا رہا ہے؟
عرضی میں کہا گیا ہے کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کے کام کرنے کا طریقہ شفاف نہیں ہے اور اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر رکھا گیا ہے، اس لیے اس میں جمع رقم کو این ڈی آر ایف میں ٹرانسفر کیا جائے، جس پر آر ٹی آئی ایکٹ بھی نافذ ہے اور اس کی آڈٹنگ کیگ کرتا ہے۔
وزیر اعظم دفتر کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا مالی سال کے آخر میں ایک آڈٹ کیا جائےگا اور 27 مارچ، 2020 کو نئی دہلی میں ایک پبلک چیریٹیبل ٹرسٹ کے طور پر اس کورجسٹرڈ کیا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے وزیر اعظم دفتر کے اس جواب کو چیلنج دیا گیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ میں حاصل ہوئی رقم اور اس کے خرچ کی تفصیلات عوامی کرنے سے منع کرنے کے بعد اب وزیر اعظم دفتر نے فنڈ میں چندہ کوٹیکس فری کرنے اور اس کوسی ایس آر خرچ ماننے کے سلسلے میں دستاویزوں کا انکشاف کرنے سے منع کر دیا ہے۔
بامبے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ کے بارےمیں جانکاری کوعوامی کرنے اور کیگ سے اس کو آڈٹ کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق خط وکتابت کی کاپی، فنڈ کو ملے کل چندے، اس فنڈ سے خرچ کی گئی رقم اور ان کاموں کی تفصیلات جس میں پیسے خرچ کیے گئے ہیں، یہ تمام جانکاریاں مانگی گئی تھیں۔ پی ایم او نے کہا کہ یہ جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے بتایا کہ 2015 سے 2020 میں اب تک وزیر اعظم کے غیرملکی سفر پر کل 446.52 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے ذریعے جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں ان میں وزیر اعظم کے ہوائی جہاز کے رکھ رکھاؤپر ہواکل خرچ شامل نہیں ہے ، جو عام طور پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
اس سے پہلے مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت سے زیر التوا ہیں۔
انفارمیشن کمشنردویہ پرکاش سنہا نے دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن معاملے میں بد عنوانی کے الزامات کے متعلق متفق ہے اور اطلاع دینے سے انکار کےلئے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 24 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ہے۔
غیرسرکاری تنظیم سترک ناگرک سنگٹھن اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھرکے26انفارمیشن کمیشن میں31مارچ2019تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔
ویڈیو: سپریم کورٹ کے حکم کے 4 سال بعد پہلی بار آر بی آئی نے آر ٹی آئی کے تحت ٹاپ ول فل ڈیفالٹرس کی فہرست جاری کی ہے۔ اس مدعے پر دی وائر کے صحافی کبیر اگروال اور دھیرج مشرا کی بات چیت۔
خصوصی رپورٹ : حال ہی میں کابینہ نے این جی ٹی میں وزارت ماحولیات کے دوسینئر افسروں کو ماہرین کے طور پر ممبر بنانے کی منظوری دی ہے۔ ان کی مدت کارپانچ سال کے بجائے تین سال طےکی گئی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا الزام ہے کہ مدت کار کو گھٹاکر مرکزی حکومت این جی ٹی کی خودمختاری کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔
آر ٹی آئی کارکنوں نے نئے اصولوں کو انفارمیشن کمیشن کی آزادی اور ان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
خصوصی رپورٹ : آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹاکر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سےمتعلق آر ٹی آئی کےتحت دی وائر کی طرف سے مانگی گئی جانکاری دینے سے بھی وزارت داخلہ نے منع کر دیاہے۔
سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر تمام ریاستوں میں آر ٹی آئی دائر کرنے کے نظام کوآن لائن کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ مرکز نے 2013 تمام ریاستوں سے آر ٹی آئی آن لائن پورٹل بنانے کے لئے کہا تھا لیکن ابھی تک صرف دہلی اور مہاراشٹر نے ہی یہ کام کیا ہے۔
آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سالگرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنرکی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھرکے انفارمیشن کمیشن میں زیرالتوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔
آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 24 (1) کچھ خفیہ اور سکیورٹی ایجنسی کو جانکاری شیئر کرنے سے چھوٹ دیتی ہے۔ حالانکہ، اگر مانگی گئی اطلاع بد عنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑی ہے تو یہ اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس میں آر ٹی آئی داخل کرکے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کے دوران پہچان کی رازداری بنائے رکھنے کے بارے میں چندہ دینے والوں کے ذریعے لکھے گئے خط اور الیکٹورل بانڈ اسکیم کے ڈرافٹ کی کاپی کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سی آئی سی نے کئی احکام میں واضح کیا ہے کہ بد عنوانی کے الزامات کی جانکاری دینے سے چھوٹ نہیں ملی ہے لیکن سی بی آئی میں آر ٹی آئی عرضیوں کو دیکھنے والے افسروں کے رخ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔