تمل ناڈو کے گورنر آر این روی نے کنیا کماری میں ہندو دھرم ودیا پیٹھم کے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے اور اسے وہیں رہنا چاہیے، کیونکہ ہندوستان میں سیکولرازم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اپوزیشن نے ان کے تبصرے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
قومی سطح پر ایک طرف کانگریس موجودہ ہندوتوا سیاست کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں لڑنے کادعویٰ کرتی ہے، وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش میں اس کےسینئر لیڈرکمل ناتھ ہندوتوا کے کٹر اور فرقہ پرست چہروں کی آرتی اتارتےاوربھرےاسٹیج پر ان کی عزت افزائی کرتےنظر آ تے ہیں۔
نئےنصاب کے مطابق، دسویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب میں مذہب، فرقہ واریت اور سیاست نصاب کا حصہ بنے رہیں گے تاہم صفحہ 46، 48، 49 پر بنی تصویروں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان تصویروں میں دو پوسٹر اور ایک سیاسی کارٹون ہے۔ انہی پوسٹروں میں فیض کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔
بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
کانگریس اب بھی قومی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن اسے وقت کےحساب سے خودکو نیا روپ دیتے ہوئےسیکولرازم پر توجہ دینی ہوگی۔
’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
ایم ایچ آرڈی کی ہدایات پر یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ وزارت نے کہا ہے کہ کووڈ19 بحران کے بیچ طلبا کی پڑھائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے 9ویں جماعت سے 12ویں جماعت تک کے نصاب کو 30 فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
قابل اعتراض بیانات کولےکر ہمیشہ تنازعات میں رہنے والے سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان اننت کمار ہیگڑے نے بنگلور میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ پڑھنےپر میرا خون کھولتا ہے۔
اپنی حالیہ فلم تاناجی کو لےکر سیف علی خان نے کہا کہ ایک اداکار کے طورپر فلم میں میرا کردار بہت اچھا ہے، لیکن فلم میں جو دکھایا گیا ہے، وہ تاریخ نہیں ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ‘انڈیا’ کا کوئی تصور نہیں تھا۔
کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے کہا کہ بی جے پی کی کامیابی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے کانگریس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ ان اصولوں کے لئے کھڑی ہو، جن پر اس نے ہمیشہ ہی یقین کیا ہے۔ نئی دہلی: کانگریس کے سینئر رہنما […]
بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔
یہ دیکھنا اور سمجھنا دلچسپ ہے کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیا ہے۔ یقین کیجئے، سیکولرزم کے بارے میں ان کی جو دلیل ہے، وہ نہ صرف بہت کنونسنگ ہے بلکہ بہت مضبوط بھی ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ بھی سر نگوں ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ دلیل سراب کی سی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارف محمد خان سیکولرزم کے اپنے دقیانوسی تصور کو گلے لگائے اب بھی 1986 میں جی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم انہیں شاہ بانو کے مقدمے سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر غور کرنے کیلئے بھی عارف محمد خان صاحب شاہ بانو مقد مے کوبنیادی حوالہ بنائے ہوئے ہیں۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
10 دسمبر، 2018 کو دئے ایک فیصلے میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے وزیر اعظم سے گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کے شہریت دی جائے۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر سین نے دسمبر 2018 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جانا چاہیے تھا۔ اس تبصرے کو ہٹانے کو عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی کی بنچ نے ہائی کورٹ سے جواب مانگا ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے نوئیڈا سیکٹر-58میں نماز پر روک، امروہہ کے ’دہشت گرد‘ اور میگھالیہ کان میں مزدور پر انڈین ایکسپریس کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر دیپتی مان تیواری اور حقوق انسانی کارکن محمد عامر سے ارملیش کی بات چیت
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں اب تک مقامی پولیس کے پاس بھی کوئی تحریری شکایت نہیں پہنچی ہے۔ تو پھر ایسا کیا ہوا جو مقامی انتظامیہ بنا کسی شکایت کے ہی یہاں ہونے والی نماز کو بند کرنے پر اتر آئی؟
ویڈیو:پبلک پلیس میں نماز پڑھنے کو لے کر حالیہ تنازعے پر پروفیسر اپوروانند کی ماسٹر کلاس۔
راہل گاندھی کے بارے میں ابھی تک رائے نہیں بدلی ہے۔ ان کو اب بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ نریندر مودی کےمتبادل ہیں۔
میگھالیہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم سے گزارش کی ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویز کےشہریت دی جائے۔
محمد سجاد کی کتاب ہندوستانی مسلمان: مسائل و امکانات؛نہ صرف موضوعاتی تنوع کا احساس کراتی ہے بلکہ یہ باور کراتی ہے کہ معاصر سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی تنقیدی دقت نظری اور تجزیاتی ژرف نگاہی کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔
کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا خیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اب اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔
ایک لبر ل ، روشن خیال مسلمان، جو ہندوستان کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، برادر ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔
غلام نبی آزاد کے پی اے نے کہا؛ ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں او راس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے۔
مسلمان خواتین کا مدعا صرف طلاق، حلالہ، کثرت ازدواج یا شرعی عدالت قطعی نہیں ہے۔ ان کو بھی آگے بڑھنے کے لئے پڑھائی اور روزگار کی ضرورت ہے۔ گھر کے اندر اور باہر تشدد سے آزاد ماحول کی ضرورت ہے۔
عالمی اردو ادب کے مدیر،فکشن نویس اورمترجم نند کشور وکرم سے تقسیم ہند ،اُردواورفلمی صحافت کے موضوع پر فیاض احمدوجیہہ کی بات چیت۔
بعض لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے سینئر صحافی شجاعت بخاری کے قتل اور ہندوستان میں سیکولرازم پر ونود دوا کا تبصرہ۔
گڑگاؤں اور بجنور کے حالیہ فرقہ وارانہ تنازعے میں مقامی سماج کے رول پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے امت سنگھ کی بات چیت۔
سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس اپنے ہی سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر کے بیان سے دامن کیوں جھاڑ رہی ہے؟کیا کانگریس سافٹ ہندتوا کی سیاست کے بعد اس وقت یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ؟
برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بالکل دو اور دو چار جیسی صاف ہے کہ کانگریس جنرل اسمبلی کے منچ سے جو بھی بولا جا رہا تھا وہ محض سیاسی بیان بازی تھی۔
اگر واقعی ہندوستان میں شدت پسندی اور اقلیتوں کے تئیں اکثریتی فرقہ کی بیزاری پر لگام لگانی ہے تو اس نفرت کے بنیادی ماخذ یعنی نصابی کتب کو بدلنا ہوگا۔
آج کل سیکولر (کچھ لوگوں کے لئے سیکُلر) لفظ دہشت گرد، اینٹی نیشنل، پاکستانی ایجنٹ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے کئی الفاظ کا مترادف بن گیا ہے۔
سنگھ اور بی جے پی میں دہشت گرد ہونے کے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھا رمیا کے بیان کے خلاف بی جے پی کا مظاہرہ۔ کہا کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت بنےگی۔
کبھی حاشیے پر رہی ہندو توا کی سیاست آج مین اسٹریم کی سیاست بن چکی ہے۔ سنگھ کے لئے اس سے بڑی کامیابی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی اہم سیاسی پارٹیاں نرم / گرم ہندو مذہب کے نام پر مسابقت کرنے لگیں۔