ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
بہت منصوبہ بند طریقے سے پورے الیکشن کے دوران یا مشترکہ محاذ بنانے کے معاملے پر سونیا خاموش رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ راہل کی والدہ یا کانگریس کی سابق صدر ہونے کا کوئی اثر راہل کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑے۔ لیکن اب چناوی سرگرمیاں تھمنے کے بعد، سونیا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اجئے اگروال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ سال 2014 میں کانگریسی رہنما سونیا گاندھی کے خلاف انتخاب لڑنے والے اگروال کو پارٹی نے اس بار رائےبریلی سے ٹکٹ نہیں دیا ہے۔
مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
بی جے پی کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد ٹام وڈکن نے کہا کہ پاکستان واقع دہشت گردوں کے کیمپ پر ہوئے حملے پر کانگریس کا ردعمل افسوس ناک ہے۔ وکاس کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ پر مجھے مکمل بھروسہ ہے۔
اگستا ویسٹ لینڈ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالہ میں 6 کروڑ یورو کی دلالی کے ملزم برٹش نژاد مشیل نے کہا کہ میرے بغل والا قیدی چھوٹا راجن ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں نے کیا جرم کیا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے جنہوں نے کئی قتل کئے ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ پرینکا نے ایک کتاب اور مکمل کر لی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی اور سیاست سے متعلق اس کتاب کا عنوان فی الحال Against Outrage دیا گیا ہے۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔
فلموں کی شوقین شیلا دکشت کو ہندوستانی سیاست کا دیو آنند کہا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں ایک کے بعد ایک چار لوک سبھا ہار چکیں شیلا دکشت کے ستارے تب بدلے جب 1998 میں سونیا گاندھی نے انہیں دہلی کی صوبائی کانگریس کا صدر بنا دیا۔
دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر فلم کے ڈائریکٹر وجئے رتناکر گٹے سے جڑی کمپنی کو نہ صرف ہندوستانی ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بلکہ اس پربرٹن میں بھی ٹیکس میں رعایت حاصل کر نے کے لیےہیراپھیری کرنے کا الزام ہے۔
ای ڈی کے وکیل نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ سودے کے دوران مشیل اور دوسرے لوگوں کی بات چیت میں کسی ‘بڑے آدمی’ کا ذکر آیا تھا، جس کا نام انگریزی کے ‘آر’ سے شروع ہوتا ہے۔
22 نومبر کو نیشنل ہیرالڈ بلڈنگ کی لیز ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو لے کراے جے ایل کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔
جسٹس اے کے سیکری کی صدارت والی بنچ نے اس معاملے کی اگلی شنوائی کے لیے 8 جنوری 2019 کی تاریخ طے کی ہے۔
کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا خیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اب اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کو لے کر اس وقت جہاں کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت پر حملہ آور ہیں وہیں مایاوتی نے کانگریس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کانگریس کا موقف ہے کہ راہل کی کیلاش مان سروور یاترا ایک ذاتی اور مذہبی یاترا ہے۔ راہل جب کرناٹک الیکشن کے دوران ایک ہوائی سفر میں حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچے تھے تو کانگریس صدر نے منت مانی تھی۔
پیٹرول ،ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کو لے کر کانگریس کی طرف سے بھارت بند بلایا گیا ہے۔ کئی پارٹیوں نے آندولن کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں تمل ناڈو کے دو اہم سیاسی رہنماوں کا انتقال ہو چکا ہے- ان دنوں صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔
جنوبی ہند کے قدآور سیاسی رہنما اور تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی کا آج شام چنئی میں انتقال ہوگیا ۔
جنوبی ہند کے قدآور سیاسی رہنما اور تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ کی صحت لگاتار بگڑتی جارہی ہے ،وہ لمبے وقت سے زیر علاج ہیں ۔فلم سے سیاست تک کے ان کے سفر پر پڑھیے رشید قدوائی کا جائزہ ۔
ہمارے وزیر اعظم گفتار کے غازی ہیں۔اپنی اسی صلاحیت کی بنا پر وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔پارلیامنٹ میں اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا مگر سننے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حقیقتاً ان سے جواب بن نہیں پڑ رہا ہے۔
RahulGandhi_Modi
کانگریس میں نئی عمرا ور تازی ہوا کا عمل دخل بڑھانے اور نئی تبدیلیوں کو لے کر راہل گاندھی سے کافی توقعات وابستہ ہیں، مگر نو تشکیل شدہ سی وی سی ان توقعات پر پوری نہیں اُتر رہی۔
معاملے کے ایک ملزم کرشچین مشیل کی بہن اور وکیل نے الزام لگایا ہے کہ ہندوستانی جانچ افسروں نے مشیل سے یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قبولکر لے کہ جس وقت وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر ڈیل ہوئی ، وہ ذاتی طور پر سونیا گاندھی کو جانتا تھا تو اس کو رہا کر دیا جائےگا۔
مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے پہلے عدم اعتماد تجویز پر لوک سبھا میں بحث جاری ہے۔ بحث کی شروعات ٹی ڈی پی کے جے دیو گلا نے کی۔ بی جے ڈی کے ممبر عدم اعتماد تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ عدم اعتماد تجویز پر ووٹنگ کے دوران شیو سینا غیر حاضر رہی۔
راہل کا اپنی سیاسی مہم میں مذہب کی آمیزش کرنا دقتیں پیدا کرنے جیسا اور نہرو کے سیکولرزم کے تصور کے خلاف ہے۔ جواہر لعل نہرو کا سیکولرزم کے متعلق پختہ اور واضح عقیدہ تھا کہ مذہب کو سیاست، معیشت، سماجی اور تہذیبی عوامل سے الگ رکھا جائے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ:بھگوا تنظیموں اور ان کے کارکنوں کا یہی ہتھکنڈہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے کے لئے ملک کی اکثریت یعنی ہندو عوام میں ایک طرح کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب کو مسلمانوں اور دوسرے اقلیتوں سے خطرہ ہے۔
کانگریس کی جن آکروش ریلی پر بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا کہ یہ ایک خاندان کی ہار کا ماتم ہے۔ کانگریس کی منفی اور مدعوں سے بھٹکانے کی سیاست سے ملک تھک چکا ہے۔ یہ پریوار آکروش ریلی ہے۔
بی جے پی ترجمان سنبت پاترا نے بھگوا دہشت گردی کو لےکر کانگریسی رہنماؤں کی بیان بازی پر راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کو ملک سے معافی مانگنے کو کہا ہے۔
برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہو جاتی ہے، وہاں یہ مبینہ چانکیہ نیتی کا ڈھول پیٹتے ہیں، جہاں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ زیادہ اعتماد ہمیں لے ڈوبا۔
جن لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے یا پھر اس نے ہندووں کے مفاد کو نظر انداز کیا ، وہ ذرا مسلمانوں کےموجودہ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات کے سرکاری اعداد و شمار کو بھی جان لیں۔
سونیا گاندھی نے کہا کہ اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف تشدد اتفاقیہ نہیں بلکہ منصوبہ بند ہے تاکہ سماج کا پولرائزیشن کر گھٹیا سیاسی فائدہ لیا جا سکے۔
سونیا گاندھی کے دورکی سب سے بڑی بدقسمت یہی کہی جائےگی کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کو بہت مضبوط نہیں کر پائیں۔ کانگریس صدر کے طور پرسونیا گاندھی کادور(Tenure) سب سے لمبا رہا ہے۔ وہ 19سال کانگریس کی صدر رہی ہیں۔ نہروگاندھی فیملی کے ممبروں میں […]
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے راہل گاندھی کو کانگریس صدر بنانے سے متعلق مختلف پہلوؤں پر ونود دوا کا تبصرہ