فون او رانٹرنیٹ خدمات کے متاثر ہونے کے بعد سے اب تک صحافیوں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک فوٹو جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ ، میں نے کبھی اپنے کیمرے کو بند نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران جہاں بھی گیا مجھے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ۔وہیں ایک دوسری صحافی کا کہنا ہے کہ ، میں نے کشمیر کی صحیح تصویر کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب میری اسٹوری چھپتی تھی تو اس میں میرا لکھا ہوا 40 فیصد ہی ہوتا تھا اور باقی وہ خود ہی شامل کرتے تھے۔
سرینگر کے نوہٹا واقع جامع مسجد ،جمعے کی نماز کے لیے پچھلے لگ بھگ چار مہینے سے بند ہے۔ پانچ اگست کو جموں کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی وہاں انٹرنیٹ خدمات بند ہیں۔
جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹانے کے ساتھ ہی وہاں ذرائع ابلاغ پر لگی پابندیوں کو چیلنج دیتےہوئے کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد، کشمیر ٹائمس کی مدیر انورادھا بھسین اور دیگرلوگوں نے عرضیاں دائر کی تھیں۔
جموں و کشمیر پولیس کے ذریعے انجانے میں صحافیوں کو بھیجے گئے ای میل میں ’ ڈی این اے فائل ‘نام سے ایک فائل تھی، جس میں ایسے سوشل میڈیا پوسٹس کے اسکرین شاٹ تھے، جو کہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بارے میں لکھے گئے تھے۔
کشمیر میں لگی پابندی پر عرضی داخل کرنے والوں کی جانب سے پیش ایک وکیل نے جب کہا کہ ہردن ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے باوجود ہانگ کانگ ہائی کورٹ نے مظاہرین پر سے سرکاری پابندی ہٹا لینے کی مثال دی ۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کا سپریم کورٹ کہیں زیادہ بہترہے۔
پارلیامنٹ سیشن میں فاروق عبداللہ کو حصہ لینے کی اجازت دینے کے اپوزیشن کے مطالبہ پر مرکزی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا کہ کانگریس نے ایمرجنسی کے دوران 30 رکن پارلیامان کو حراست میں رکھا تھا۔ اس پر نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ریڈی کا تبصرہ اس بات کی دلیل ہےکہ جموں و کشمیر ایمرجنسی کے برے دور سے گزر رہا ہے۔
وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد پتھربازی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری سے 4 اگست تک اوسطاً ہر مہینے پتھربازی کے 50 واقعات ہوئے۔وہیں 5 اگست کے بعد ایسے معاملے اوسطاً ہر مہینے بڑھکر 55 ہو گئے۔
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی صاحب سے بس یہی گزارش ہے کہ امن، قدر و منزلت، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
مرکزی وزیر نے کہا، ‘ہمارے پاس ایک نیا نظام ہے اوریہ نظام سیدھے مرکز کو رپورٹ کرتا ہے اور ہم اسے اس حلقے کے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے اور کامیاب بنانے کے لئے اس کا سہرا دیتے ہیں۔’
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں ۔ اس مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ
رام چندر گہا کا کالم: مکیش امبانی کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق بالکل خاموش ہیں؛ جبکہ سرکار نے سرمایہ کاری میلے کو غیر معینہ مدت کے لیے آگے بڑھا دیا ہے۔ وعدے تو مزید نوکری، مزید فیکٹریز کے کیے گئے تھے، مگر 5اگست کے بعد سے کشمیریوں نے پایا کیا ہے؛ مزید افواج، مزید پابندیاں۔ اس نے ان میں گہرا غصہ پیدا کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ 14 نومبر سے اس معاملے کی شنوائی کرے گی۔ مرکز کو پانچ اگست کے صدر جمہوریہ کے حکم کے خلاف دائر عرضیوں پر اپنا جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
جموں کشمیر انتظامیہ نے 450 سے زیادہ کاروباریوں،صحافیوں، وکیلوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک فہرست تیار کی ہے، جو کہ ایک طے شدہ مدت کے دوران غیر ملکی سفر نہیں کر سکیں گے۔
کشمیر میں یورپی رکن پارلیامان کے دورے کو مبینہ طور پر فنڈ دینےوالا انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان-الائنڈ اسٹڈیز، شریواستو گروپ کا حصہ ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر اس کے کئی کاروبار ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ دستاویز ایساکوئی بزنس نہیں دکھاتے، جس سے وہ یورپی رکن پارلیامان کو ہندوستان بلانے اور وزیراعظم سے ملاقات کروانے میں اہل ہوں۔
جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے 89 ویں دن بھی بند جاری۔نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے مرکزی حکومت کے قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ وادی میں کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور پہچان چھیننے کا الزام لگایا۔
مرکزی حکومت کے ذریعے آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی صورتحال جاننے کے لئے سرینگر پہنچےیورپی وفدمیں شامل جرمنی کے رکن پارلیامان نکولس فیسٹ نے یہ بات کہی ہے۔
ہندوستان کو ایک انٹرنیشنل بزنس بروکر کے ذریعے غیر ملکی رکن پارلیامان کے کشمیر آنے کی تمہید تیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ جو رکن پارلیامان بلائے گئےہیں وہ شدید طور پر رائٹ ونگ جماعتوں کے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسی پارٹی سے نہیں ہے جن کی حکومت ہو یا نمایاں آواز رکھتے ہوں۔ تو ہندوستان نے کشمیر پر ایک کمزور وفد کوکیوں چنا؟ کیا اہم جماعتوں سے من مطابق ساتھ نہیں ملا؟
جموں و کشمیر کے دو روزہ دورے پر آئے یورپی یونین کے رکن پارلیامان نے کہاکہ ہمیں فاشسٹ کہہ کر ہماری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے۔
برٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر دورہ کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نےسکیورٹی کی غیر موجودگی میں مقامی لوگوں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
سرینگر اور ریاست کے کئی حصے پوری طرح سے بند رہے۔ پانچ اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کےخصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے 86ویں دن بھی کشمیرمیں معمولات زندگی درہم برہم رہی۔
یورپی یونین کے 27 رکن پارلیامان کا وفد منگل کو جموں وکشمیر کا دورہ کررہا ہے۔ یہ وفد آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹائے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے گئی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں کے رہنماؤں کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
مودی حکومت جمہوریت کی جن علامتوں کو سنجونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان کوختم کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں لینے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے جیسے کئی معاملوں پر دائر عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
کسی شخص کے تحفظ کو خطرہ میں ڈال سکنے والی اطلاع ہونے کا حوالہ دےکر آر ٹی آئی کے تحت آگرہ سینٹرل جیل کی طرف سے جانکاری دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ قومی مفاد میں لئے گئے انتظامی فیصلوں کی اپیل پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ صرف عدالت ہی اس کو دیکھ سکتی ہے اور درخواست گزار اس کو نہیں دیکھ سکتے۔
کانگریس کے علاوہ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، پیپلس کانفرنس، سی پی ایم اور کشمیر کی کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی بی ڈی سی انتخابی عمل میں شامل نہ ہونے کی بات کہی ہے۔ بی جے پی نے کہا کہ بی ڈی سی انتخاب کی مخالفت کانگریس، این سی، پی ڈی پی کے کھوکھلےپن کو ظاہر کرتا ہے۔
جے این یوکی سابق اسٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کی پارٹی جموں کشمیر پیپل موومنٹ (جے کے پی ایم)سے اسی سال مارچ میں جڑی تھیں۔ رشید کا کہنا ہے کہ وہ کارکن کے طور پر کام کرنا جاری رکھیں گی۔
نئی دہلی میں انڈین پولیس سروس 2018 بیچ کے پروبیشنروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر ہمیشہ کے لئے ایک یونین ٹریٹری نہیں رہےگا اور حالات معمول پر آنے کے بعد اس کا ریاست کا درجہ بحال کر دیا جائےگا۔
ویڈیو: جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 پر سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ہندوستانی آئین میں واضح طور پر ہندوستان کو ریاستوں کا یونین کہا گیا ہے یعنی ایک یونین کے طور پر سامنے آنے سے پہلے بھی یہ ریاست وجود میں تھے۔ ان میں سے ایک جموں و کشمیر کا یہ درجہ ختم کرتے ہوئے مودی حکومت نے یونین کے نظریہ کو ہی چیلنج دیاہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ حراست میں لیے گئے جموں وکشمیر کے رہنماؤں کو ہالی ووڈ فلموں کی سی ڈی اور جم کی سہولیات دی گئی ہیں ۔ وہ ان سہولیات کا ستعمال کر رہے ہی ، جو ان کے گھر پر بھی نہیں ملتیں ۔
ویڈیو: سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی سے بات چیت میں این آر سی ، آرٹیکل 370، کارپوریٹ ٹیکس اور اقتصادی بحران جیسے کئی مدعوں پر اپنی رائے دی ۔
اگلے مہینے ہونے والے اسمبلی الیکشن سے پہلے مہاراشٹر میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کشمیر کوہندوستان میں ’انضمام نہیں کرنے‘ کو لےکر نہرو کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سیڈیشن کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ حکومت ٹرولس سے متفق ہے اور یہ مانتی ہےکہ شہلا ایک خطرناک انسان ہیں۔
این ایس اے کے دعوے کے مطابق اگر آرٹیکل 370 پر کشمیر کے لوگ پوری طرح سے حکومت کے ساتھ ہیں، تو ان کے رہنماؤں کے بڑے جلسے کو خطاب کرنے کے امکان سے حکومت کو ڈر کیوں لگ رہا ہے؟
کشمیر کے سی پی آئی ایم رہنما اور سابق ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے ہیں ۔ نئی دہلی واقع پارٹی صدر دفتر پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیری آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، گھٹن ہو رہی ہے وہاں۔
یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ ہندوستان کے مسلم لیڈران نے جموں وکشمیر میں ہورہی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کئے ہیں جیسے ان کی چابیاں ہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔ جمیعۃ کے لیڈران آئین کی اس شق کی ترمیم و تحلیل کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یونیفار م سول کوڈ اور تین طلاق قانون کے اطلاق پر کیوں شور مچا رہے ہیں؟
گجرات کے وڈودرا واقع ایم ایس یونیورسٹی کا ہےمعاملہ۔ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ایک بی جے پی ممبر نے کہا کہ ہم نے طلبا اور ملازمین سے اپنی مرضی سے ریلی میں شامل ہونے کو کہا ہے، کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی گئی۔
جموں وکشمیر میں لگی پابندیوں کی وجہ سے والدین بچوں کی حفاظت کو لے کر پریشان ہیں اور انہیں اسکول نہیں بھیج رہے ہیں۔
جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل370 کےاکثر اہتمام کو ختم کئے جانے کے 40ویں دن بعد بھی کشمیر میں زندگی متاثر ہے۔