مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اب اس واقعہ کے دو ماہ بعد بھی سوگوار خاندان اتر پردیش حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔
کمبھ میں بھگدڑ ہوئی۔ کتنی موتیں ہوئیں، اب تک ہمیں نہیں معلوم۔ کووڈ کی وجہ سے کتنی موتیں ہوئیں، ہمیں نہیں معلوم۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اتنے لوگ زندہ بچ گئے، اس کے لیے ہمیں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ مچنے سے 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آر پی ایف کی رپورٹ کے مطابق، کمبھ اسپیشل ٹرین کا پلیٹ فارم تبدیل کرنے کے اعلان سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ۔ بھیڑ فٹ اوور برج پر پھنس گئی تھی۔ اس دوران کچھ لوگ نیچے گر گئے اور دوسرے انہیں روندتے ہوئے نکل گئے۔
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن بھگدڑ میں سنجے نےاپنی بہن پنکی دیوی کو کھو دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’یہ بھگدڑ نہیں، انتظامیہ کی ناکامی تھی۔’ خاندان کمبھ جانے کے لیے پرجوش تھا، لیکن اسٹیشن پرہی بھیڑ میں پھنس گیا۔ پنکی کی موت کے بعد خاندان گہرے صدمے میں ہے، حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
شمالی ریلوے کے ترجمان ہمانشو اپادھیائے نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 14 پر پٹنہ کی طرف جانے والی مگدھ ایکسپریس اور پلیٹ فارم نمبر 15 پر جموں کی طرف جانے والی اتر سمپرک کرانتی کھڑی تھی۔ فی الحال اس حادثے کی تحقیقات ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کر رہی ہے۔
پی یو سی ایل کی اتر پردیش یونٹ نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں پایا کہ یوگی حکومت نے کمبھ میں ہونے والی اموات کی حقیقی تعداد کو چھپانے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے، جیسے لاشوں کو دو مختلف پوسٹ مارٹم مراکز میں بھیجا گیا اور کچھ معاملوں میں ان کی برآمدگی کی جگہ اور تاریخ میں ہیرا پھیری کی گئی۔
ڈھائی ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے اور چپے چپے پر سکیورٹی اہلکار کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ بھگدڑ کو روکنے میں کیوں ناکام رہی؟ انتظامیہ کو جھونسی کے علاقے میں ہوئی بھگدڑ کی جانکاری کیوں نہیں تھی؟ اگر جانکاری تھی تو بکھرے کپڑے، چپلوں اور دیگر چیزوں کو بڑے ٹرکوں میں کس کے حکم پر ہٹوایا جا رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں میں لگ کر گنگا کی ماٹی بھی ان لوگوں کے لیے چلی آتی ہے جو گنگا تک نہیں جا پائے۔ مہاکمبھ میں بھگدڑ کی رات جب عقیدت مند میلے کے علاقے سے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو جن مسلمانوں کو کمبھ میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، کمبھ خود ہی ان کےگھروں اور مسجدوں میں چلا آیا۔
مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جو حادثہ پیش آیا، اس کے لیے انسانی بھول اور بھیڑ پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب چوں کہ حکومت اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، تو اسے اس سانحے کے بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پر قبول کرنا ہی چاہیے۔
حادثے کے دو دن بعد بھی پریاگ راج میں صورتحال ابتر ہے۔ دودھ اور اخبار بھی لوگوں کے گھروں تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر بے تحاشہ بھیڑ کے درمیان گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔
اترپردیش کے الہ آباد میں بدھ کو مہاکمبھ کے دوران سنگم میں بھگدڑ جیسی صورتحال سے متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ خبروں میں 15 ہلاکتوں کی بات کہی جارہی ہے، لیکن سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ جولائی میں خود ساختہ بابا نارائن سرکار ہری عرف بھولے بابا کے ستسنگ میں مچی بھگدڑ میں 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اب تین ماہ گزرنے کے بعد ریاستی پولیس کی طرف سے داخل کی گئی چارج شیٹ میں ‘بھولے بابا’ کا نام نہیں ہے۔
خود ساختہ بابا نارائن ساکار ہری عرف بھولے بابا کے ست سنگ میں مچی بھگدڑ میں اس ماہ کے شروع میں 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جسے انہوں نے ان کی تنظیم کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
بھگوا لباس یا دھوتی کُرتا جیسے باباؤں کے روایتی لباس سے قطع نظر سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس کرامات کے ذریعے عقیدت مندوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ‘بھولے بابا’ کو ‘سورج پال’ اور ‘نارائن ساکار ہری’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ست سنگ کے دوران منگل کو مچی بھگدڑ میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 121 ہو گئی ہے۔ کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ہاتھرس کے سکندرراؤ تھانہ حلقہ کے پھولرئی گاؤں میں منعقد ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگدڑ مچنے سے 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ14اگست کو اعظم گڑھ ضلع کے ترواں تھانہ حلقہ کے بانس گاؤں کے پردھان ستیہ میو جیتے کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا۔ شیڈول کاسٹ سے آنے والے پردھان کے اہل خانہ کاالزام ہے کہ گاؤں کے نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں نے ایسا یہ پیغام دینے کے لیے کیا کہ آگے سے کوئی دلت بے حوفی سے کھڑا نہ ہو سکے۔
ہلاکتوں کی تعداد آخری خبریں آنے تک 31 ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے یہ تعداد 12 بتائی گئی تھی جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔