تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو نے تہران میں ہنیہ پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو امریکی ایما پر ہو رہی جنگ بندی مذاکرات کا بیڑا غرق کردیا، دوسرا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کا راستہ فی الحال بند کردیا اور اسی کے ساتھ اپنے لیے اقتدار میں برقرار رہنے کا جواز بھی فراہم کردیا۔
بیروت میں ہندوستانی سفارت خانے نے تمام ہندوستانی شہریوں کو ملک کے غیر ضروری سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنان میں مقیم ہندوستانیوں سے اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے اور محتاط رہنے کو بھی کہا گیا۔
ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مطابق، تہران میں حماس کے سرکردہ رہنما اسماعیل ہنیہ کے گھر پر حملہ کیا گیا، جس میں ہنیہ اور ان کے ایک سکیورٹی گارڈ بھی مارے گئے۔
ایران میں گزشتہ چار دہائیوں سے خواتین کے اسٹیڈیم میں داخلے پر پابندی ہے۔حال ہی میں ایک خاتون کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کو دی جانے والی سزائے قید کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس خاتون نے خود سوزی کر لی تھی۔
کیا امریکہ ہماری موجودہ عالمی تنہائی میں کچھ ہاتھ بٹائے گا یا پھر سو پیاز اور سو جوتے ہی ہمارا مقدر رہیں گے؟ کیا اس سب کا ہماری مقتدرہ نے جائزہ لیا ہے؟ یا ہم فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرواتے رہیں گے اور عمران خان دوسرے ورلڈ کپ سے دل بہلاتے رہیں گے؟
جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے، نریندر مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے رشتے مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔