اینکرز کے بائیکاٹ کے بعد اپوزیشن جماعت کے اتحاد کے چند لیڈران نے چینل مالکان پر شکنجہ کسنے کی مانگ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی 11 صوبوں میں حکومتیں ہیں۔ اگر وہ واقعی نفرت پھیلانے والے چینلوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرتی ہیں اور ان کو اشتہارات دینے سے منع کرتی ہیں، تو ان مالکان کے لیے چینلوں کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔
جب صحافت فرقہ واریت کی علمبردار بن جائے تب کیا اس کی مخالفت سیاست کے سوا کچھ اورہو سکتی ہے؟ اور عوام کے درمیان لائے بغیر کیا اس احتجاج کا کوئی مطلب رہ جاتا ہے؟ کیا اس سوال کا جواب دیے بغیر یہ وقت برباد کرنے جیسا نہیں ہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد کا طریقہ ٹھیک ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے ٹی وی خبروں کے مواد پر ریگولیٹری کنٹرول کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ اسپیچ ایک ‘بڑا خطرہ’ ہے۔ ہندوستان میں ‘آزاد اور متوازن پریس’ کی ضرورت ہے ۔ عدالت نے کہا کہ آج کل سب کچھ ٹی آر پی سے چلتا ہے۔ چینل ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے معاشرےکو تقسیم کر رہے ہیں۔
حال ہی میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات نے کئی پرائم ٹائم ٹی وی اینکروں اور بڑے چینلوں کے مدیران کو اس بات پر تبادلہ خیال کے لیے بلایا کہ کیا نیوز چینلوں پر فرقہ واریت اور پولرائزیشن کو فروغ دینے والے مباحث کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وزیر موصوف واضح طور پر غلط جگہ پر علاج کا نسخہ آزما رہے ہیں جبکہ اصل بیماری ان کی ناک کے نیچے ہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ ہندوؤں کی حمایت میں بھی نہیں بول رہے ہیں۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے غیراعلانیہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہندومسلم کشیدگی پیدا کرکے آپ ان کے سیاسی مفاد کو پورا کر رہے ہیں۔