فکر و نظر

جب فرقہ واریت اور صحافت میں فرق مٹ جائے، تب اس کی مخالفت کیسے کی جانی چاہیے؟

جب صحافت فرقہ واریت کی علمبردار بن جائے تب کیا اس کی مخالفت سیاست کے سوا کچھ اورہو سکتی ہے؟ اور عوام کے درمیان لائے بغیر کیا اس احتجاج کا کوئی مطلب  رہ جاتا ہے؟ کیا اس سوال کا جواب دیے بغیر یہ  وقت برباد کرنے جیسا نہیں ہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد کا طریقہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

کیا فرقہ واریت کی مخالفت کرنا صحافت کی مخالفت کرنا ہے؟ جب فرقہ واریت اور صحافت کے درمیان فرق مٹ جائے تو پھر اس کی مخالفت کیسے کی جانی چاہیے؟ کیا فرقہ وارانہ صحافت کوصحافت کے نظریاتی اور عملی اصولوں کے تحت تحفظ  حاصل ہونا چاہیے؟ اگر کوئی قاتل اینکر بن جائے یا اینکر بن کر قتل کے لیےاکسانے لگے تو کیا صحافت کے تحریری اور غیر تحریری اصولوں کے تحت اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے؟

ان سوالوں کو چھوڑ کر ‘انڈیا’ اتحاد کے 14 اینکرز کی فہرست کو  اور دیگر سوالوں کے ساتھ منسلک کرنا صحافت کے نام پر فرقہ پرستی کو بچانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

جن چینلوں کے اینکرز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے، کیا انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد کا الزام غلط ہے؟ ان کا اینکر فرقہ واریت کا زہر یا اس کا نیا نام ’ہیٹ اسپیچ‘ نہیں پھیلاتا ہے؟ آخر چینلوں نے  ہی اپنے اینکرز اور ان کے پروگراموں کا اس بنیاد پردفاع کیوں نہیں کیا؟ان چینلوں سے زیادہ بی جے پی ان کادفاع کر رہی ہے۔

یہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ بی جے پی صحافت کا نہیں اس ہیٹ اسپیچ  کا دفاع کر رہی ہے جو ان کی سیاست کو سہارا دیتی ہے۔ مودی حکومت کے وزراء اس بحث میں صحافت کے لیے نہیں کودے ہیں، اس معاملے میں ان کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ کہیں  بی جے پی کی تشویش  کچھ اور  تو نہیں ہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد کے اس قدم سے فرقہ وارانہ سیاست کا سب سے بڑا فرنٹ عوام کے درمیان  سیاسی ایشو بن جائے گا؟

نیوز چینلوں کی ایک تنظیم نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (این بی ڈی اے) نے اپنے بیان میں ایمرجنسی کا ذکر تو کیا ہے لیکن اس بارے میں ایک سطر بھی  نہیں لکھا ہےکہ جن چینلوں کے اینکرز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے وہ ہیٹ اسپیچ نہیں پھیلاتے ہیں۔ یا یہ کہ اپوزیشن کا  الزام غلط ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے سیلف  ریگولیٹری یونٹ نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ڈی ایس اے) نے نیٹ ورک 18 کے اینکر امن چوپڑا پر دو پروگراموں کے لیے جرمانہ  لگایا تھا، اس لیے تنظیم کی پریس ریلیز میں ایک لفظ بھی ہیٹ اسپیچ کے بارے میں نہیں ہے۔ جبکہ ساری بحث اسی سوال سے شروع ہوتی ہے کہ چینلوں کے اینکر اپنے پروگراموں میں نفرت پھیلاتے ہیں۔

این بی ڈی اے نے اس اہم سوال پر خاموشی کیوں اختیار کی؟ کیا یہ صحافت کے نام پر فرقہ واریت کا دفاع نہیں ہے؟ چینلوں اور این بی ڈی اے نے کیوں نہیں کہا کہ وہ ہیٹ اسپیچ کو روکیں گے؟

جب صحافت فرقہ واریت کی علمبردار بن جائے تو کیا اس کی مخالفت سیاست کے سوا اور کچھ ہو سکتی ہے؟ اور عوام کے درمیان لائے بغیر اس احتجاج کا کوئی مطلب رہ جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیے بغیر کیایہ وقت ضائع کرنانہیں ہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد کاطریقہ  ٹھیک ہے یا نہیں۔

اس بارے میں کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا اور عام آدمی پارٹی کے ایم پی  راگھو چڈھا کا بیان سن رہا تھا۔ وہ اپنے بیان میں  کہیں سے جارح نہیں تھے اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو اکسا رہے تھے۔پون کھیڑا نے کہا کہ ہم ان اینکرز سے نفرت نہیں کرتے ہیں۔ ان میں بہتری ا ٓئی تو ہم واپس ان کے پروگراموں میں جائیں گے۔

یقینی طور پر ’انڈیا‘ اتحاد کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے اور اپنے کارکنوں اور حامیوں سے اپیل کرنی چاہیے کہ وہ ان صحافیوں کو ٹرول نہ کریں۔ جیل کی دھمکیاں نہ دیں۔ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے اور اس کا طریقہ جمہوری ہونا چاہیے نہ کہ  جیسا بی جے پی کرتی ہے۔ اپوزیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ الگ سیاسی معاشرہ کی تعمیر کرے۔

‘انڈیا’ اتحاد کے اس فیصلے کو لے کر دو طرح کی تنقیدیں سامنے آئی ہیں۔ پہلی تنقید ان اینکروں، چینلوں اور بی جے پی کی ہے، جنہوں نے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان تینوں میں مماثلت بلا وجہ نہیں ہے۔

دوسری تنقید ان لوگوں کی طرف سے ہے جو اس قدم کو درست سمجھتے ہیں، اپوزیشن کا حق مانتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اتحاد کو اینکرز کے نام شائع نہیں کرنے چاہیے تھے۔ یہ لوگ اس قدم کو صحافت کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں جو اب ان چینلوں میں ہوتی نہیں ہے۔

ساگریکا گھوش، ویر سنگھوی، راجدیپ سردیسائی نے اس کی تنقید کی ہے کہ اپوزیشن کو نام شائع نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ خطرناک ہے۔ شیکھر گپتا نے انہی خطوط پر تفصیل سے لکھا ہے کہ بی جے پی بھی بائیکاٹ کرتی رہی ہے مگر ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقے سے۔ کیا واقعی شیکھرکو لگتا  ہے کہ 2014 کے بعد مودی راج کے دوران ضلع سے لے کردہلی تک جس طرح صحافت کو کچلا گیا وہ ایک ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقہ تھا؟

شیکھر کہتے ہیں کہ ایک استثنا کے ساتھ پارٹی نے کبھی رسمی طور پر کوئی اعلان نہیں کیا۔ لیکن کیا وہ استثنا تھا؟ کیا یہ بائیکاٹ ماقبل اڈانی این ڈی ٹی وی کے سابق پروگراموں میں ترجمان نہیں بھیجنے تک محدود تھا ؟ کیا وہ بھول گئے کہ کس طرح سےتمام  صحافیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، ان میں خواتین صحافیوں کے نام بھی شامل ہیں،انہیں نوکری سے نکلوایا گیا، کئی ریاستوں میں ایف آئی آرہوئی، آئی ٹی سیل کے ذریعے ٹرول کیا گیا، کیا یہ سب ایک ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقہ تھا؟

کیا شیکھر کو نظر ہی  نہیں آیا کہ صحافیوں کے بائیکاٹ کا خطرناک کھیل کئی سطحوں پر کھیلا گیا ہے اور وہ اپوزیشن کی  تنقید کرنے کے لیے پریس ریلیز لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیا اب بی جے پی اور مودی حکومت کے دور میں یہ سب بند ہوگیا ہے؟

حال ہی میں بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے لوک سبھا میں صحافی ابھیسار شرما اور روہنی سنگھ کا نام لیا تھا۔ کیا یہ بھی کوئی ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقہ تھا؟ کیا اسے لوک سبھا کی کارروائی سے نکالا بھی گیا تھا؟ شیکھر گپتا کو کم از کم یہ تو لکھنا چاہیے تھا کہ صحافی صدیق کپن کو گرفتار کرنا اور انہیں مہینوں تک جیل میں رکھنا ‘سوفسٹیکیٹڈ’ نہیں تھا۔

اڈانی گروپ پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزام لگے ہیں،  بی جے پی حکومت نے  بہت ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقے سےاسے ہضم کر لیا لیکن صدیق کپن پر پانچ ہزار روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگا دیا گیا۔ ان کی اس دلیل سے ایک مطلب یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اگر اقتدار کے دباؤ میں کسی اینکر کونوکری سے نکال دیا جائے، اس کی اشاعت پر ہر طرف سے پابندی لگا دی جائے، تاکہ اس کی کمائی بند ہو جائے اور وہ بھوکا مر جائے، تب بھی خاموش رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ سب ‘ہوتا رہتا ہے’۔ کیونکہ یہی بیسٹ ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقہ ہے؟

شیکھر گپتا کا پورا مضمون اسی بنیاد پر کھڑا ہے کہ ‘ہوتا رہتا ہے’۔ کیا شیکھر کو بائیکاٹ کے اسی ایک طریقہ سے دقت ہے اور باقی سب ‘ہوتا رہتا ہے’؟

شیکھر گپتا اپنے مضمون میں ‘ ہوتا رہتا ہے’ کے نام پران خطروں کوسطحی بناتے ہیں اور اسے نارملائز بھی کرتے ہیں۔ مجھے اعتراض اس نارملائزیشن پر ہے کہ صحافت میں یہ ‘ہوتا رہا ہے’ اور پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ جبکہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا صحافت کےعام بحران سے نہیں گزر رہا۔ شیکھر نے بڑی چالاکی سےاسے صحافت کا سوال بنا کر فرقہ پرستی کوپردے کے پیچھے کھڑا کر دیا ہے۔ اسے بچا لیا ہے۔ ان کا پورا مضمون خطرناک طور پر جبر کےتمام حربے  کو نارملائز  بناتا ہے اور اسے صحافتی پیشے کےروٹین  کا حصہ بناتا ہے۔

سال 2016 میں جب راجستھان میں وسندھرا راجے کی حکومت نے راجستھان پتریکا اخبار کا اشتہار روک دیا تو اس کے مالک اور  ایڈیٹر گلاب کوٹھاری نے اداریہ لکھا کہ یہ آمریت ہے اور اسے صفحہ اول پر شائع کیا۔ شیکھر کے مطابق گلاب کوٹھاری کو اداریہ نہیں لکھنا چاہیے تھا، یہ توصحافت میں ‘ہوتا رہتا ہے’۔

اشتہار کا ذکر کرتے ہوئے شیکھر گپتا اپنا صفحہ بھر رہے تھے کہ حکومتیں اشتہارات روکتی رہتی ہیں اور ہم  جانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں؟ کس لیے جانتے ہیں؟ جاننے کے بعد کیا کرتے ہیں؟ کیا یہ بھی کوئی ‘سوفسٹیکیٹڈ’ طریقہ ہے جس کو سفید پوشوں کے دربار میں نہیں چھیڑا جانا چاہیے، خواہ اشتہارات نہ ملنے کی وجہ سے اخبارات اور چینل کو بند ہو جانا چاہیے۔

شیکھر گپتا اپنے مضمون کے آخر میں ہیٹ (نفرت) کے بارے میں لکھتے ہیں اور بہت ہلکے انداز میں بتاتے ہیں کہ نفرت بکتی ہے، نفرت کو ٹی آر پی ملتی ہے۔ مکیش امبانی کو کیا آج 10-20 کروڑ روپے کے ریونیو کی اتنی ضرورت پڑ گئی ہے کہ ان کے چینل کا ایک اینکر مذہب کے نام پر نفرتی ڈیبیٹ شو کرتا ہے؟ کیا اس شو کو بند کر دینےسے مکیش امبانی کا بنگلہ نیلام ہوجائےگا؟

شیکھر کو سوال کرناچاہیے تھا کہ کیا آج کی تاریخ میں مکیش امبانی اس پروگرام کوبند کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب مکیش امبانی کے پاس نہیں ہے، وزیر اعظم مودی کے پاس ملے گا۔ کس کو سمجھ نہیں آتا ہے کہ یہ ڈیبیٹ شو صحافت کے تحت کیے جانے والے پروگرام نہیں ہیں، بلکہ بی جے پی کی سیاست کو پھیلانے کےپلیٹ فارم ہیں۔ شیکھر کے مضمون میں یہ دونوں فیکٹر ندارد ہیں۔

شیکھر نے اپنی انگریزی سے فرقہ واریت کو کتنا خوبصورت اور قابل قبول بنا دیا ہے۔ گویا یہ آج کی صحافت کا کوئی ‘اور بحران ‘ہے۔ شیکھر گپتا کا یہ مضمون باریک انگریزی کے ورق میں لپیٹ کر فرقہ پرستی کو  گلاب جامن کی طرح پیش کرتا ہے کہ بس کچھ مت بولو، دیکھوبھی مت، چپ چاپ نگل جاؤ۔ میرے حساب سے ان کا یہ مضمون صحافت کے نام پر فرقہ واریت کا کلاسیکی دفاع ہے جسے کلاس روم میں پڑھایا جانا چاہیے۔

اجیت انجم نے لکھا ہے کہ اے بی پی چینل کے اینکر سندیپ چودھری کے پروگرام میں بی جے پی نے اپنے ترجمان کو بھیجنا بند کر دیا ہے۔ سندیپ چودھری کے معاملے کو آپ ان 14 اینکرز کے بائیکاٹ کے ساتھ نہیں ملا سکتے ہیں۔ سندیپ چودھری فرقہ وارانہ پروگرام نہیں کرتے ہیں، ان کے سوال وہی ہوتے  ہیں جو ایک صحافی کے ہونے چاہیے، پھر بی جے پی نے ان کا بائیکاٹ کیوں کیا؟

کیا اپوزیشن کے بائیکاٹ کی مخالفت کرنے والے چینل یا این بی ڈی اے کی طرف سے کوئی پریس ریلیز آئی  ہے کہ سندیپ چودھری کے پروگرام کا بائیکاٹ ہندوستان کو ایمرجنسی کی طرف  لے جا رہا ہے؟

اپوزیشن کی فہرست میں آنے والے کئی اینکرز نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم سوال تو پوچھتے رہیں گے، لیکن احتجاج سوال پوچھنے کے حوالے سےنہیں تھا، ہیٹ اسپیچ کے حوالے سے تھا،ان کے پروگراموں  کی فرقہ وارانہ زبان اور تیورکے حوالے سے تھا۔ ان میں سے کسی کو تو اپنے  کسی پروگرام کا ویڈیو ٹوئٹ کرنا چاہیے تھاکہ وہ وزیر اعظم مودی اور امت شاہ کے سامنے کس طرح سے سوال پوچھتے ہیں۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ 2014 کے بعد سے ان کے سوالوں کی  کیا حالت ہوگئی  ہے؟ کیا عوام کو نہیں معلوم کہ وہ وزیروں سے کس طرح سے سوال کرتے ہیں؟ جب ایک وزیر نے اینکر کو جیل کی یاد دلائی تو کیا یہ جمہوریت پر حملہ نہیں تھا، وزیر کا چپ کرانانہیں تھا؟

بنیادی سوال  ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کو ایسے پروگراموں میں جانا چاہیے جو فرقہ واریت کا زہر پھیلاتے ہوں؟ اگر نہیں تو کیا سیاسی جماعت کو یہ فیصلہ غیر اعلانیہ انداز میں لینا چاہیے؟ اس کی مخالفت کا عدم تعاون یا بائیکاٹ سے بہتر جمہوری طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔ وہ طریقہ کیوں نہیں عوامی اور شفاف   ہونا چاہیے؟

کیا اسے پبلک کر کےاپوزیشن نے یہ واضح نہیں کر دیا کہ اگر فرقہ پرستی سے لڑنا ہے تو فرقہ واریت کی شکار ہوچکی  صحافت سے بھی لڑنا ہو گا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ‘انڈیا’ اتحاد نے ان اینکرز کے مشکل سوالوں سے تنگ آکر بائیکاٹ نہیں کیا ہے،جس  طرح وزیر اعظم نریندر مودی کرن تھاپر کے سوال سے تنگ آکر مائیک اتار کر چلے گئے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کئی بار خاموشی سے ایسے پروگراموں کا بائیکاٹ کیا اور شیکھر کے بتائے ہوئے نسخے کے مطابق کیا، لیکن کیا اس سے کوئی بہتری آئی؟

اپوزیشن نے راتوں رات فیصلہ نہیں کیا۔ دس سال سے یہ تماشا دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ لیا ہے۔ عدالت نے کئی بار کہاکہ کیا کبھی کسی اینکر کو آف ائیر کیا گیا؟ ہیٹ اسپیچ کے خلاف سپریم کورٹ کے کتنے ہی  تبصرے ہیں، لیکن کیا عدالت کے حکم کے مطابق بھی ان چینلوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے؟ بہت سی تنقیدیں ہو چکی ہیں، ان نفرت انگیز پروگراموں کے منفی اثرات کا پورے ملک نے مشاہدہ کیا ہے، کیا چینلوں نے خود سے ان پر روک لگانے کی کوشش کی ہے؟

جہاں بھی فرقہ وارانہ تشدد ہوتا ہے وہاں انٹرنیٹ بند کر دیا جاتا ہے لیکن فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والے چینلوں کو بند نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا اسی سے ایک بات واضح نہیں ہوتی کہ صحافت کے اس فرقہ وارانہ پروجیکٹ کو کس کی حمایت حاصل ہے؟

فرقہ واریت کے خلاف کوئی بھی لڑائی خفیہ طور پرہوسکتی۔ اگر فرقہ پرستی کی مخالفت کرنی ہے تو مختلف بنیادوں اور پلیٹ فارم پر اس کی مخالفت کے اصول مختلف نہیں ہو سکتے۔ اگر خاموش رہ کر، اس سے  ہاتھ ملا کر لڑائی لڑی گئی تو وہ  فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی نہیں ہوگی۔ سب کو ایک سوال کا جواب دینا چاہیےکہ گودی میڈیا فرقہ پرستی کا سب سے بڑا فرنٹ (محاذ)ہے، کیا فرقہ پرستی کی مخالفت صحافت کی مخالفت ہے؟ میں نے اسی سوال سےاپنا مضمون شروع کیا تھا، اسی پر ختم کرتا ہوں۔