فکر و نظر

ڈاٹا اسٹوری: جانیے کیسے کرناٹک میں اصل جیت کانگریس کی ہوئی ہے

انتخابی سیاست میں کسی حکومت کے کام کا اندازہ انتخاب میں اس حکومت (پارٹی) کے مظاہرہ پر ہی منحصر  ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے لیکن کئی بار ہم جیتنے والوں کے لئے قصیدے پڑھ دیتے ہیں اور ہارنے والوں کے ہر فیصلے میں غلطی ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

karnataka-election-2018

15 مئی کی دوپہر کو کرناٹک انتخاب کا نتیجہ تقریباً صاف ہو چوکا تھا۔ حکمراں پارٹی کانگریس کی شکست ہو چکی تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اسی دوران (اس وقت تک بی جے پی 110 سیٹوں پر آگے چل رہی تھی) ایک میڈیا کے ساتھی نے مجھے فونپر پوچھا-کرناٹک کی سدھارمیا کی حکومت کے ذریعے چلائی گئی عوامی فلاح و بہبود اسکیم ( ” اننا بھاگیہ ” وغیرہ)، جس پرخوب بات  ہو رہی تھی، کیا وہ کام نہیں کیا؟ کیا سدھارمیا کی سماجی مساوات AHINDA (دلت، آدیواسی، پچھڑا اور اقلیت) کے لوگوں نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیا؟

انتخابی سیاست میں کسی حکومت کے کام کا اندازہ انتخاب میں اس حکومت (پارٹی) کے مظاہرہ پر ہی منحصر  ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے لیکن کئی بار ہم جیتنے والوں کے لئے قصیدے پڑھ دیتے ہیں اور ہارنے والوں کے ہر فیصلے میں غلطی ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ میڈیا کے اس ساتھی کے سوال نےاس بات کو بھی جوڑا تھا کہ کیسے راجستھان میں اشوک گہلوت کی قیادت والی حکومت کئی عوامی فلاح و بہبود اسکیم نافذ کرنے کے باوجود 2013 میں اسمبلی انتخاب ہار گئی تھی۔ ان کے سوال کے پیچھے کا اصل مقصد یہ رہا ہوگا کہ کیا کسی حکومت کے ذریعے چلائی جا رہی عوامی فلاح و بہبود اسکیم کسی پارٹی یا حکومت کو انتخاب میں ووٹ نہیں دلا سکتی ہے؟

اس سوال کا بڑا جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک پختہ ریسرچ کی ضرورت ہے لیکن کرناٹک کے تناظر میں ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے ذریعے چلائی گئی عوامی فلاح و بہبود اسکیموں نے لوگوں کو متاثر نہیں کیا۔ موٹے طور پر کرناٹک انتخاب کا نتیجہ یہ اشارہ کرتا ہے کے لوگوں نے کانگریس کی حکومت کو رجیکٹ کر دیا لیکن جب اسی انتخاب کا گہرائی سے خاص علاقوں کی بنیاد پر مطالعہ کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت کے عوامی فلاح و بہبود اسکیموں کو لوگوں نے اپنی حمایت دی ہے۔ اس کو ہم کانگریس پارٹی کو ملے ووٹ کی بنیاد پر سمجھ سکتے ہیں۔

گراف 1: پچھلے تین اسمبلی انتخابات میں تین اہم پارٹیوں کا ووٹ فیصد

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔بہ شکریہ الیکشن کمیشن آف انڈیا

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔بہ شکریہ الیکشن کمیشن آف انڈیا

کانگریس پارٹی سیٹوں کے معاملے میں دوسرے مقام (78 سیٹیں) پر آئی لیکن ووٹ کے معاملے میں وہ  پہلے مقام پر رہی بی جے پی (104 سیٹیں) سے دو فیصد زیادہ ووٹ ملے۔ کانگریس کو نہ صرف اس بار بی جے پی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے ہیں بلکہ پچھلے تین اسمبلی انتخابات سے کانگریس کے ووٹ میں اضافہ ہی ہو رہا ہے (اوپر گراف 1 دیکھیے) اور اس بار ہارنے کے باوجود پچھلے اسمبلی انتخاب کے مقابلے کانگریس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا ہے۔

عموماً ایسا نہیں دیکھا گیا ہے کہ کسی  حکمراں پارٹی کی کراری ہار‌کے باوجود اس کے ووٹ میں اضافہ ہو جائے۔ کرناٹک میں ہی 1985 سے کسی بھی حکمراں پارٹی کو لگاتار دوبارہ اقتدار کی حصولیابی نہیں ہوئی ہے اور ہر بار حکمراں پارٹی کو لوگوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر اس کی سیٹیں اور ووٹ فیصد دونوں میں گراوٹ آئی (فہرست 1 دیکھیے) لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حکمراں پارٹی کا ووٹ پچھلی بار کے مقابلے بڑھ گیا ہو (فہرست 1 میں ووٹ فیصد والا کالم دیکھے)۔

نوٹ : ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ الیکشن کمیشن آف انڈیا

نوٹ : ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ الیکشن کمیشن آف انڈیا

گراف 1 اور فہرست 1 کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کے پچھلے کچھ انتخابات سے ہار اور جیت‌کے باوجود کانگریس کے اپنے ووٹ میں کوئی گراوٹ نہیں آئی ہے، بلکہ پچھلے تین انتخابات میں کانگریس کا ووٹ پچھلے انتخاب کے مقابلےبڑھا ہی ہے (دیکھیے گراف 1)۔ اس کے علاوہ کانگریس کا ووٹ نہ صرف پوری ریاست میں بڑھا ہے بلکہ علاقائی طور پر  بھی بڑھا ہے اور یہ اضافہ نہ صرف اس بار کے انتخاب میں رہا ہے بلکہ یہ اضافہ پچھلے تین انتخاب سے لگاتار ہو رہا ہے (نیچے گراف 2 دیکھیے)۔ جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کانگریس کا سماجی فارمولہ اس کے ساتھ ہی ہے۔

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ،ترویدی سینٹر فار پولیٹکل ڈاٹا، اشوکا یونیورسٹی۔

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ،ترویدی سینٹر فار پولیٹکل ڈاٹا، اشوکا یونیورسٹی۔

حالانکہ AHINDA (جو کانگریس کا سوشل ووٹ کی بنیاد رہا ہے) ووٹ کی تشہیر پوری ریاست میں ہے لیکن شمالی کرناٹک  اور خاص طور پر حیدر آباد کرناٹک علاقوں میں AHINDA گروپ کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ حیدر آباد کرناٹک علاقے کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ریاست کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہ علاقہ پچھڑا ہوا مانا جاتا ہے۔  یہی علاقہ ہے جہاں زراعت کے لئے پانی کی سہولت کم ہے اور ریاست میں پچھلے لگاتار تین چار سال سے آئے سوکھے کا بڑا اثر اس  میں پڑا ہے۔ ان سب کے باوجود کانگریس کو حیدر آباد کرناٹک علاقہ میں پچھلی بار کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں (اوپر گراف 2 دیکھیے)۔

اپنے فیلڈ ورک کے دوران ہمیں اس علاقے کے زیادہ تر لوگو ں نے بات چیت کے دوران بتایا کہ کیسے سدھارمیا کا ” اننا بھاگیہ ” اسکیم ان کے لئے ایک رحمت ثابت ہوئی ہے۔ وہی دوسری اور اسی علاقے کے لنگایت کمیونٹی کے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کی وجہ سے ان کو مزدور ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یعنی کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ سدھارمیا کی عوامی فلاح و بہبود اسکیم کے لوگوں نے مثبت ووٹ نہیں دیے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب کانگریس کا سوشل فارمولہ(AHINDA) اس کے ساتھ بنا رہا اور عوامی فلاح و بہبود اسکیموں کو بھی لوگوں نے سراہا پھر کانگریس کی اس انتخاب میں ہار کیسے ہو گئی؟ آخر کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھنے کے باوجود اور بی جے پی سے زیادہ ووٹ ہونے کے باوجود وہ کم سیٹوں پر کیوں سمٹ گئی؟

اس سوال کے جواب کئی ہو سکتے ہیں لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کا ووٹ  کرناٹک کے تمام علاقوں میں تقریباً یکساں شکل سے پھیلا ہواہے لیکن اس کے برعکس بی جے پی کی ریاست کے ایک بڑے علاقے جنوبی کرناٹک (Old Mysore) میں کوئی مضبوط ووٹ بنیاد نہیں ہے جبکہ 5 دیگر علاقوں میں اس کو ایک پختہ ووٹ ملا ہے جس کو نیچے گراف 3 میں دیکھا جا سکتا ہے۔

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ،ترویدی سینٹر فار پولٹکل ڈاٹا، اشوکا یونیورسٹی۔

نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔ ڈاٹا کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔ بہ شکریہ،ترویدی سینٹر فار پولٹکل ڈاٹا، اشوکا یونیورسٹی۔

کانگریس کی ریاست سے تمام 6 علاقوں کے بہ نسبت بی جے پی کی ریاست کے 5 علاقوں میں ملے ووٹ میں ہوئے اضافہ کی وجہ سے بی جے پی کا ووٹ سیٹ تناسب کافی اچھا رہا جس کی وجہ سے اس کو کانگریس کی بہ نسبت زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ کرناٹک میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ 2004 اور 2008 کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں کم سیٹیں ملی تھیں۔

اس کے علاوہ ایک بڑی کمی جو کانگریس میں یہ رہی کہ اس نے اپنے ووٹ کی بنیاد تو بچا لی لیکن اس انتخاب کو جتنے کے لئے اس کو 3-4 فیصد ایڈیشنل ووٹ بڑھانے کی ضرورت تھی کیونکہ 2013 میں بی جے پی اوریدورپا کی قیادت والی کرناٹکا جنتا پکچھ (KJP) کے الگ الگ انتخاب لڑنے کی وجہ سے لنگایت ووٹ میں بکھراؤ تھا اور اس سے کانگریس کو فائدہ ہوا۔ لیکن 2018 میں BJP اور KJP کے ایک ساتھ ہونے اور بعد میں بی ایس آر سی پی کے بھی ساتھ آ جانے سے بی جے پی کے ووٹ کی بنیاد 2013 کے مقابلے متحد ہو گئی۔

سدھارمیا اس بات کو بھانپ گئے تھے اور اسی وجہ سے ان کی حکومت نے لنگایت کمیونٹی کو اقلیتی کمیونٹی کا درجہ دینے کی سفارش کی تھی تاکہ لنگایت ووٹ میں کچھ درار آئے اور کانگریس کو اس کا کچھ فائدہ ملا لیکن وہ اس کو زمین پر نہیں اتار پائے۔لنگایت کمیونٹی کے کئی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ابھی صاف نہیں ہیں کہ اقلیت کا درجہ ملنے سے ان کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس کے ٹھیک الٹ ان کو ایسا لگا کہ یہ حکومت لنگایت کمیونٹی میں ویراشیویا اور لنگایت کو بانٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ کانگریس کے متعلق ان کی کشش نہیں ہوئی اور کانگریس اپنے ووٹ میں ضروری اضافہ نہیں کر پائی ۔اور نتائج اس کے خلاف آئے۔

 ( مضمون نگار اشوکا یونیورسٹی کے ترویدی سینٹر فار پولیٹکل ڈاٹا میں ریسرچ فیلو ہے۔ اس مضمون کے لئے موہت کمار اور سدیش پرکاش نے ڈاٹا پروسیسنگ میں تعاون دیا ہے۔)