خبریں

جاگرن گروپ کے اخبار نے ڈی یو پروفیسر نندنی سندر کو بتایا ’ماؤوادی‘

جاگرن گروپ کے اخبار نئی دنیا نے دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر اور سماجی کارکن نندنی سندر کی عرضی پر سپریم کورٹ کے ذریعے چھتیس گڑھ حکومت کو بھیجے گئے نوٹس کی خبر میں سندر کو ماؤوادی کارکن بتایا ہے۔

پروفیسر نندنی سندر اور نئی دنیا کے رائے پور ایڈیشن میں28 نومبر کو شائع خبر

پروفیسر نندنی سندر اور نئی دنیا کے رائے پور ایڈیشن میں28 نومبر کو شائع خبر

نئی دہلی:جاگرن گروپ کے اخبار نئی دنیا کے رائے پور ایڈیشن میں سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی  کی پروفیسر نندنی سندر کو   لےکر شائع ایک خبر میں ان کو’ماؤوادی کارکن’کہا گیا ہے۔یہ خبر پروفیسر سندر کے ذریعے چھتیس گڑھ میں ان کے خلاف دائر قتل اور مجرمانہ سازش کے ایک معاملے سے ان کا نام ہٹانے کو   لےکر سپریم کورٹ میں درج عرضی کے بارے میں تھی، جہاں منگل کو سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ حکومت کو ہدایت دی کہ اس کو اس معاملے کی   پیش رفت سے واقف کرایا جائے۔

نئی دنیا کے رائے پور ایڈیشن میں28 نومبر کو شائع خبر (فوٹو بشکریہ: متعلقہ ای پیپر)

نئی دنیا کے رائے پور ایڈیشن میں28 نومبر کو شائع خبر (فوٹو بشکریہ: متعلقہ ای پیپر)

نئی دنیا کے ذریعے شائع اس خبر میں بائی لائن میں’ایجنسی’ لکھا ہے۔  اخبار کے ذریعے شائع یہی خبر دینک جاگرن کی ویب سائٹ پر بھی دکھائی دیتی ہے۔یہاں خبر کا عنوان’ماؤوادی کاریہ کرتا نندنی کے خلاف  جانچ پر چھتیس گڑھ سے رپورٹ طلب’ہے اور بائی لائن میں’پریٹ’یعنی پریس ٹرسٹ آف انڈیا(خبر رساں ایجنسی)لکھا ہے، حالانکہ اس خبر رساں ایجنسی کے ذریعے دی وائر سمیت مختلف میڈیا اداروں کو ملی خبر میں’ماؤوادی’لفظ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خبر رساں ایجنسی نے اپنی کسی رپورٹ میں نندنی سندر کے لئے ‘ ماؤوادی کارکن ‘ لفظ کا استعمال نہیں کیا ہے، نہ ہی عدالت کے ذریعے منگل کو ہوئی سماعت میں نندنی کے لئے ایسے کسی لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں نندنی کو سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی  کی پروفیسر بتایا ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہے جب جاگرن گروپ کے ذریعے اس طرح کی غیرذمہ دارانہ اور قابل اعتراض رپورٹنگ کی گئی ہے۔  پہلے بھی کئی بار مختلف حساس مدعوں کو   لےکر جاگرن گروپ کے ذریعے کی گئی خبروں پر سوال اٹھ چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ حکومت سے کہا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک دن نیند سے جاگیں اور کہیں معاملے کی جانچ جاری ہے

اس سے پہلے منگل کو سپریم کورٹ کے ذریعے چھتیس گڑھ حکومت کو ہدایت دی گئی تھی کہ پروفیسر نندنی سندر اور دیگر کے خلاف قتل کے معاملے میں ہوئی تفتیش کی   پیش رفت سے عدالت کو واقف کرایا جائے۔سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو ان قدامات کے بارے میں بھی بتانے کی ہدایت دی ہے جو وہ نندنی سندر اور دیگر کے خلاف اٹھانا چاہتی ہے۔جسٹس مدن بی لوکر، جسٹس ایس عبدالنظیر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے نندنی سندر کی عرضی پر چھتیس گڑھ حکومت کو نوٹس جاری کیا اور تین ہفتے کے اندر اس پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

واضح  ہو کہ چھتیس گڑھ پولیس نے ریاست کے سکما ضلع میں ایک قبائلی شام لال بگھیل کے قتل اور مجرمانہ سازش کے الزام میں نومبر 2015 میں نندنی سندر اور دیگر کے خلاف معاملہ درج کیا تھا۔  دیگر ملزمین میں جے این یو  کی پروفیسر ارچنا پرساد، سیاسی کارکن ونیت تیواری اور سنجے پراتے شامل ہیں۔نندنی سندر نے سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں اس معاملے میں درج ایف آئی آر سے اپنا نام ہٹانے کی گزارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دو سال میں ریاستی حکومت نے ان کے خلاف درج معاملے میں کچھ نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دو سال میں ایک بار بھی ان سے پوچھ تاچھ تک نہیں کی ہے۔چھتیس گڑھ حکومت کی طرف سے سالسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ اس معاملے میں   پیش رفت ہوئی ہے اور آئی پی سی کی دفعہ 164 کے تحت کئی آدمیوں کے بیان درج کئے گئے ہیں۔  مہتہ نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر منسوخ نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ اس معاملے میں   پیش رفت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا،’اس معاملے کی تفتیش کرنے کی ہماری منشاء ہے۔  ہم اس معاملے میں ہوئی   پیش رفت کے بارے میں عدالت کو مطمئن کریں‌گے۔  ‘

نندنی کی طرف سے سینئر وکیل اشوک دیسائی نے کہا کہ ریاستی حکومت نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں پچھلے دو سال میں کچھ نہیں کیا ہے۔  ریاستی حکومت اس ایف آئی آر کو زیر التوا رکھے ہوئے ہے اور ایک بار بھی ان سے پوچھ تاچھ نہیں کی ہے۔دیسائی نے کہا کہ ان کی موکل کو جب بھی غیرملکی دورے پر جانا ہوتا ہے تو ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کو بتانا پڑتا ہے کہ کیا ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر زیر التوا ہے یا نہیں۔

اس پر بیچ نے دیسائی سے کہا کہ ایف آئی آر سے نام ہٹانے کا مطلب ایک طرح سے ایف آئی آر کو منسوخ کرنا ہے اور دوسرےفریق کو سنے بغیر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔اس کے بعد بنچ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔  آپ نے پچھلے دو سال میں کچھ نہیں کیا ہے۔  ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک دن نیند سے جاگیں اور کہیں کہ معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔  آپ غیرمعینہ مدت کے لئے کسی پر زیر التوا ایف آئی آر کی تلوار نہیں لٹکا سکتے۔  بہتر ہوگا کہ آپ بتائیں کہ معاملے میں کیا   پیش رفت ہوئی ہے۔بنچ نے اس کے بعد نندنی سندر کی عرضی کو تین ہفتہ بعد سماعت کے لئے لسٹ کر دیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)(نوٹ : نندنی سندر دی وائر کے ایک بانی مدیر کی بیوی ہیں۔  )