لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ ان کی رام تحریک مذہبی نہیں تھی۔ وہ رام نام کے پس پردہ مسلمانوں سے نفرت والےسیاسی ہندو کو تیار کرنے کی تحریک تھی۔ جئے شری رام اسی گروپ کا ایک سیاسی نعرہ ہے۔ اس نعرے کا رام سے اور رام کے احترام سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں۔ آپ جب جئے شری رام سنیں تو مان لیں کہ آپ کو جئے آر ایس ایس کہنے کی اور سننے کی عادت ڈالی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں مغربی بنگال میں’جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک گروپ نے ممتا بنرجی کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی۔ ممتا گاڑی سے اتر پڑیں تب نعرہ لگانے والے ان کو دیکھکر بھاگنے لگے۔ ممتا نے ان کو للکارا کہ وہ ذرا رکیں۔ انہوں نے بانگلا میں کہا، ‘ہری داس سب۔ یہی سیکھا ہے، گالی گلوچ کرنا۔ ‘پولیس نے اس گروپ کے تین لوگوں کو پکڑ لیا، تھوڑی دیر تھانے میں بٹھاکر چھوڑ بھی دیا گیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے ممتا کی اس پھٹکار کو بھگوان رام کی ہتک بتاتے ہوئے طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ پارٹی کے اہم مبلغ نے، جو ہندوستان کے وزیر اعظم بھی ہیں، بنگال میں ایک انتخابی جلسہ میں کہا کہ اس ریاست میں چونکہ ‘جئے شری رام ‘ بولنے پر جیل بھیج دیا جاتا ہے، وہ ممتا بنرجی کو چیلنج دے رہے ہیں کہ وہ ان کو گرفتار کرکے دکھائیں۔
چیلنج کے طور پر انہوں نے زور زور سے جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ کچھ اسی انداز میں جیسے بہار میں وہ دھمکی کے انداز میں وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ریکارڈ کئے گئے تھے۔بہادری کا یہ سوانگ وہی تھا جو ایک بہروپیا اڈوانی کے رام رتھ میں ان کا خادم بنکر سالوں پہلے اس راستے پر چل چکا تھا جو جھوٹ، نفرت اور تشدد کا راستہ تھا۔یہ نعرہ کیوں لگایا جا رہا تھا ایک انتخابی جلسہ میں؟ ایک انتخابی مبلغ کے ذریعے؟ الیکشن کمیشن مطمئن ہے کہ اس کے دلارے رہنما کے منھ سے کچھ بھی قابل اعتراض نکل ہی نہیں سکتا۔ ویسے بھی شری رام کی جئے بولنے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے بھلا؟
پارٹی کے رہنماؤں نے اس کے بعد پریس کانفرنس کی۔ ایک رہنما نے کہا کہ ممتا بنرجی کو یہ نعرہ برا لگتا ہے لیکن اب ان کو اس کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ بنگال میں یہ اب لگتا ہی رہےگا۔جئے شری رام ؛ یہ رام کی فتح کانعرہ ہے، رام کی شان وشوک یا ان کی عظمت کا نعرہ ہے؟ یا یہ رام کو لائق پرستش ماننے والوں کا ایک دوسرے کو کیا جانے والا خیر مقدم ہے؟جیسے کرشن کے بھکت ایک دوسرے کو ‘ہری-ہری’ کہہکرمخاطب کرتے ہیں۔ ‘رادھے کرشنا ‘ تو خطاب ہے، لیکن ‘شیو-شیو ‘ خطاب نہیں، کچھ غلط ہو جانے قبول نامہ محض ہے۔ ویسے ہی جیسے ہم ‘ رام-رام ‘ بولتے ہیں۔بم بھولے کی فتح کانعرہ بھی ہم نے سنا ہے، جئے شنکر بھی سنا ہے۔ شیو کو بھولا کہنے والا اس کے نام پر تشدد کیسے کر سکتا ہے اور کیسے سہہ سکتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ ایک دوسرے کی حدود جانتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
مثلاً، رام کا بھکت کرشن کو ماننے والے کو رام نام لینے پر مجبور نہیں کرتا اور نہ ہی کرشن کا چاہنے والا شیو کے بھکت کو رادھا اور کرشن کی جئے کہنے کو کہتا ہے۔جئے شری رام کا نعرہ نہ تو کرشن بھکتوں کے لئے سب سے پسندیدہ ہے اور نہ شیو بھکتوں کے لئے۔ لیکن بے جوڑ کیرتن میں گھنٹوں ہرے رام ہرے رام، رام رام ہرے ہرے کا ورد کرتے ہوئے لوگوں کو اکتاہٹ ہوئی ہو، نہیں دیکھا۔ویسے ہندو ایک ساتھ کئی دیوی-دیوتاؤں کی عبادت کر سکتے ہیں۔ میری ماں کے پوجا کے کونے میں جانے کتنے ہی دیوی-دیوتا براج رہے ہیں۔ سب چین سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ وہ جب صبح کے وقت پوجا کرتی ہیں تو اکثر میں نے اندازہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیا وہ ایک ساتھ سب کی وندنا کرتی ہیں یا انہوں نے ہفتے کے حساب سے ان کی باری طے کر دی ہے۔
بچپن سے ہی میں نے ان کو صبح کی یہ پوجا کرتے دیکھا ہے، اب چھٹی کی وجہ سے پوجا کی مدت تھوڑی لمبی ہو گئی ہے لیکن کبھی ان کو جئے شری رام بولتے نہیں سنا۔پنڈوں کی نگری دیوگھر کا ہوں، جہاں شیو کو پیار سے بابا کہا جاتا ہے۔ وہاں کبھی ہرہرمہادیو کا نعرہ نہیں سنا۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے پر اجمالی طورپر’مہادیو ‘سے ایک دوسرے کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے باہمی طور پر سلام کر لیتے ہیں۔لیکن ہمیں معلوم ہے کہ جو ایک مقام پر ہمارے منکی پاکیزگی کا اظہار ہے وہ دوسرے مواقع پر بےرحمی کی خوفناک شکل اختیار کر لے، اس میں تعجب نہیں۔ ‘اللہ اکبر ‘ میں اللہ کی عظمت کا بیان ہے لیکن دوسروں پر حملہ کرتے وقت یہ حملہ آور کی ڈھال بن جاتا ہے۔یہی بات ‘ہرہرمہادیو’کے ساتھ ہے۔ دوسروں پر حملہ کرتے وقت یہ بھی مہادیو کے لئے نہیں، اپنے تشدد کی حفاظت میں مہادیو کا استعمال ہے۔
ہندو ماحول میں ہی پلا بڑھا ہوں۔ ہندو خطاب، آداب کے طور طریقوں سے تعارف ہے۔ ہم نے کبھی اپنے گھروں میں احتراماً والد کو پتاشری یا ماں کو ماتاشری کہتے نہیں سنا۔ بڑے بھائی کو بھراتاشری بھی نہیں۔ اگر ایسا کیا جاتا تو سب کو لگتا کہ دماغ چل گیا ہے، علاج کی ضرورت ہے۔بھیشم ساہنی نے اپنے بچپن کی کہانی لکھی ہے، جب بڑے بھائی بلراج نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان کو بھراتاجی کہہکر بلائےگا۔ بڑے بھائی کا حکم تھا، بھیشم نے جب بہنوں کے سامنے بلراج کو بھراتاجی کہا تو وہ کھلکھلاکر ہنس پڑیں، ‘ کوا چلا ہنس کی چال! ‘ وہ لکھتے ہیں کہ بعد میں یہ پنجابی کے ‘ بھاپا ‘ میں بدل گیا۔یہ تو رامانند ساگر کا کرم ہے کہ ہم نے رام اور لکشمن کو اس طرح کی ہندوستانی ہندی میں الاپ کرتے سنا۔ یہی وقت تھا، جب جئے شری رام بھی آہستہ آہستہ رواج میں آیا۔ ساگر کے لکشمن بڑے بھائی کو بھراتاشری کہہکر بلاتے۔ ان کی کوئی بہن نہ تھی، جو ہنستی۔
یہی وقت تھا، جب جئے شری رام بھی آہستہ آہستہ رواج میں آیا۔ ایک دوسرے کو پرانے ہندو کانوں کو یہ سخت جان پڑتا ہے۔ وہ زیادہ دیسی’ جئے رام جی کی’یا ‘جئے سیارام’کے عادی ہیں۔رام-رام ایک دوسرے سے ہندو اور غیر-ہندو بھی کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان نے شاید اس پر اعتراض نہ کیا ہو۔ ویسے ہی جیسے ہندو-مسلمان دونوں ہی ایک دوسرے کو آداب کہتے رہے ہیں۔ سلام بھی مذہبی رواداری کی مثال رہا ہے۔ بچپن سے وداع لینے کے لئے خدا حافظ کہنے کی عادت کچھ ایسی پڑ گئی ہے کہ ملحد ہونے کے سنگین منفی دور میں نہیں گئے۔
ایشور کے روپ کے نام پر مخاطب کرنے کی روایت پرانی ہے۔ لیکن جئے شری رام کہہکر عام مذہبی ہندوؤں کو ایک دوسرے کا احترام کرتے کبھی نہیں سنا۔رام جنم بھومی تحریک کے دوران، جو دراصل بابری مسجد کے انہدام کی مہم تھی، رام کے آگے شری جوڑنا ضروری مانا گیا۔ لیکن سب کو پتہ تھا کہ یہ سلام نہیں ہے، ایک خاص گروپ کی اپنی عظمت کا اعلان ہے۔ یہ رام کی عظمت کا نعرہ نہیں۔ رام کا نام لینے والوں کی غنڈہ گردی کا اعلان ہے۔ یہ ایک گروپ کا تعلقاتی فارمولہ ہے۔
جئے شری رام کی تشہیر کا ہندوؤں کے اس گروپ کے آگے آہستہ آہستہ خود سپردگی سے تعلق ہے۔ یہ نعرہ رام کو بڑا دکھلانے کی جگہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے تشدد سے بھرا ہوا ہے۔ اس نعرے کے ایجاد کے وقت کی یاد ہے۔لال کرشن اڈوانی رتھروپی ٹویوٹا پر جب اشومیگھ کے لئے نکلے اور پٹنہ پہنچے، ان کی جماعت پیشانی پر بھگوا پٹہ باندھے ہر گاڑی پر ڈنڈا پٹکتے ہوئے اس میں سوار لوگوں کو جئے شری رام کا نعرہ لگانے کی دھمکی دے رہے تھے۔ایسا کرکے انہوں نے رام کے لیے کتنے لوگوں کے دلوں میں نفرت بھر دی ہوگی، اس کا ان کو اندازہ تھا کہ نہیں، معلوم نہیں۔ لیکن خود ڈنڈے کی طاقت پر سامنے والے سے جئےشری رام بلوانے کی مسرت ایک غنڈہ کی مسرت ہی تھی۔
تب سے اب چوتھائی صدی سے زیادہ وقت گزر گیا۔ ایک گروپ نے اس کو ہندوؤں کے نعرے میں بدل دیا۔ اب یہ شیوجی کو پانی چڑھانے جانے والے کانوڑیے بھی لگاتے ہیں اور درگا پوجا میں بھی اس کو لگایا جانے لگا ہے۔ یہ اصل میں اس گروپ کے نظریہ کو ماننے والے ہندوؤں کے اتحاد کا اعلان ہے۔صحافی ایشلن میتھیو کو جھارکھنڈ میں ایک شخص نے کہا کہ پہلے جو لوگ ‘ نمستے ‘، ‘ جوہار ‘ کہہکر سلام کرتے تھے، اب ‘ جئے شری رام ‘ بولنے لگے ہیں۔بنگال میں پچھلے دو سالوں میں یہ نعرہ شدت کے ساتھ لگایا جانے لگا ہے۔ کوئی وجہ ہوگی کہ اس کو لگانے والے بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے جڑے پائے جاتے ہیں۔
جب جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے لوگ کیا ممتا بنرجی کو سلام کر رہے تھے یا ان کے خلاف اپنے تشدد کا اظہار کر رہے تھے؟ وہ بے شک کسی مذہب کے نشے سے شرابور ہوکر جھوم نہیں رہے تھے۔جئے شری رام کے نعرے میں تھوڑی سی بھی دینداری نہ تھی۔ لال کرشن اڈوانی نے بعد میں صاف کہا تھا کہ ان کی رام تحریک مذہبی نہیں تھی۔ وہ اس کے پس پردہ مسلمان سے نفرت کرنے والے سیاسی ہندو کو بنانے کی تحریک تھی۔جئے شری رام اسی گروپ کا ایک سیاسی نعرہ ہے۔ اس نعرے کا رام سے اور رام کے احترام سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں۔ آپ جب جئے شری رام سنیں تو مان لیں کہ آپ کو جئے آر ایس ایس کہنے کی اور سننے کی عادت ڈالی جا رہی ہے۔
ممتا نے اس کو ٹھیک ہی پہچانا۔ جئے شری رام چلانے والوں کو دھمکایا،’ہری داس سب! رکو۔ ‘ بنگالی ہری داس کے طنز سمجھتے ہیں، یہ ہری کے داسوں کے لئے نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے، تم ایرے غیرے لوگ! پھر اس نعرے کو جس نے اپنے جلسہ میں دہرایا اس کو بھی تو ممتا یہی کہیںگی، ارے ہری داس! اس نعرے میں شردھا نہیں ہے، تشدد ہے، اپنی طاقت کا بیان ہے۔ لیکن میرے لئے تو تم ٹھہرے ہری داس ہی۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر