خبریں

پولیس کو حکم کیسے دیں، جب ہم خود خالی عہدے نہیں بھر پا رہے: دہلی ہائی کورٹ

ایک عرضی میں راجدھانی کی بڑھتی آبادی اور بڑھتے جرائم کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی پولیس میں جوانوں کی منظور شدہ تعداد کو بڑھانے اور اضافی پولیس اہلکاروں کی تقرری کئے جانے کا حکم دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے  کہا کہ جب ہم عدلیہ میں منظور شدہ عہدوں کو نہیں بھر پا رہے ہیں تب ہم دہلی پولیس کو آخر کس طرح سے حکم دے سکتے ہیں کہ وہ شہر میں اپنے منظور شدہ عہدوں کی تعداد میں اضافہ کرے؟دہلی ہائی کورٹ نے یہ تبصرہ ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیا۔ اس عرضی میں راجدھانی کی بڑھتی آبادی اور بڑھتے جرائم کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی پولیس میں جوانوں کی منظور شدہ تعداد کو بڑھانے اور اضافی پولیس اہلکاروں کی تقرری کا حکم دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر کی بنچ نے تبصرہ کیا، ‘ ہم اپنے ججوں کے منظور شدہ عہدوں کو تو بھر نہیں پا رہے ہیں۔ ان کو کہاں سے حکم دیں۔ حالانکہ، بنچ نے آگے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو کافی اور مناسب تربیت دی جانی چاہیے۔ ‘یہ عرضی دہلی سٹیزن فورم فار سول رائٹس نامی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی او) نے داخل کی تھی۔

عرضی میں دہلی حکومت کو دہلی پولیس میں ہونے والی نئی بھرتی کی تربیت کے لئے متحد اور اپڈیٹڈ ہدایات نافذ کرنے کا حکم دینے کی بھی مانگ کی گئی تھی۔حالانکہ، ایسا کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ‘ معاملے کے حقائق  اور حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور دہلی پولیس کے پاس پہلے سے ہی پولیس کی تربیت کا ڈھانچہ ہے۔ ‘

این جی او نے الزام لگایا تھا کہ مبینہ طور پر ایک مہینے میں ہوئے 16 قتل کے بعد پولیس کو اپگریڈ تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ وہیں، عرضی میں 16 جون کو شمالی دہلی میں پولیس اہلکاروں اور ٹیمپو ڈرائیور کے درمیان ہوئی جدو جہد کا ذکر کیا گیا تھا۔وہیں، لوک سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے جانکاری دی، ‘ سپریم کورٹ میں ججوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سال 2009 کے بعد پہلی بار سپریم کورٹ میں 31 ججوں کی پوری تعداد ہے۔ حالانکہ، 1 جولائی، 2019 تک مختلف ہائی کورٹ میں 403 عہدے خالی ہیں۔ ‘

انہوں نے بتایا، ‘ مختلف ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری مجلس عاملہ اور عدلیہ کے درمیان لگاتار شراکت دار عمل کا حصہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے لئے مختلف آئینی اداروں سے صلاح اور منظوری لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘