خبریں

مؤرخ عرفان حبیب نے کہا؛ آر ایس ایس جموں و کشمیر میں مقامی مسلمانوں کو پریشان کرتا تھا، ان کی زمینیں چھین لیتا تھا

مؤرخ عرفان حبیب نے علی گڑھ میں  کہا کہ ، اس وقت سنگھ پریوار نے کشمیر کے مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کر دیے تھے۔ سنگھ کے ممبر مقامی مسلمانوں کو پریشان کرنے لگے تھے اور ان کی زمینیں چھین لیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ سردار پٹیل پرمٹ سسٹم کے لیے راضی ہوئے تاکہ باہری لوگوں کو مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے سے روکا جا سکے۔

Photo : The Hindu

Photo : The Hindu

نئی دہلی: جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلےکی مذمت کرتے ہوئے ملک کے نامور مؤرخ عرفان حبیب نے اس کو کشمیرکے لوگوں کے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔ 87 سالہ مؤرخ نے علی گڑھ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ،’مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خطرے کا بہانہ بناتے ہوئے کشمیر کے لوگوں کو اعتماد  میں لیے  بغیر یہ فیصلہ کیا ہے۔’

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق؛عرفان حبیب نے کہا کہ بی جے پی کبھی کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی تعریف کرتے نہیں تھکی،جنھوں نے جموں و کشمیر کے ہندوستان میں ضم ہونے کی مخالفت کی اور ریاست کی خود مختاری کی پیروی کی۔انھوں نے کہا،’ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا سوال اٹھتا ہی نہیں اگر مہاراجہ ہری سنگھ جموں و کشمیر کے ساتھ کسی دیگر ریاست کی طرح ہی برتاؤ کیے جانے کے اس وقت کی مرکزی حکومت کی خواہش سے متفق ہو جاتے۔’

حبیب نے کہا،’اس وقت کے وزیر داخلہ ولبھ  بھائی پٹیل کے کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیے جانے سے متفق ہونے کی واجب وجوہات تھیں۔’انھوں نے کہا، اس وقت سنگھ پریوار نے کشمیر کے مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کر دیے تھے۔ انھوں نے مزید کہا،’سنگھ کے ممبر مقامی مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے لگے تھے اور ان کی زمینیں چھین لیں۔یہی وجہ تھی کہ سردار پٹیل پرمٹ سسٹم (کشمیر میں انٹری کے لیے)کے لیے راضی ہوئے تاکہ باہری لوگوں کو مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے سے روکا جا سکے۔’

عرفان حبیب کے مطابق،’اس کے بعد بھی ملک کے لوگوں کو کشمیر جانے کے لیے آسانی سے پرمٹ مل جاتا تھا۔حالانکہ جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی جیسے رہنماؤں کو وہاں جانے سے روکا گیا کیونکہ ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔’حبیب نے بتایا کہ کشمیر میں مقامی باشندوں کو زمین ،سرکاری نوکری وغیرہ میں خاص حقوق دینے سے جڑے آرٹیکل 35 اے کو 1954 میں لانے کا مقصد یہ تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان گئے کشمیریوں کو واپس لایا جا سکے۔

انھوں نے کہا،’آرٹیکل 35 اے کی وجہ سے لوگ واپس بھی لوٹے۔ اس وقت جموں و کشمیر کی زراعتی پالیسی ملک میں سب سے بہتر تھی کیونکہ ریاستی حکومت نے کسانوں کو مفت میں زمین دی۔ ایسا کرنا حکومت ہند کے قانون کے تحت ممکن نہیں ہو پایا۔’انھوں نے مزید کہا کہ بہتر ہوتا اگر جمہوری طریقے سے چنی گئی اسمبلی ،تجویز پاس کرکے ان آرٹیکلس کو ختم کرتی۔