فکر و نظر

ایودھیا فیصلے پر جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کیوں کہا؛ ویل ڈن مائی لارڈس

یہ سوچنا بیوقوفی ہے کہ ایودھیا سے متعلق فیصلہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی آئے گی۔

(فوٹو :اے پی/پی ٹی آئی)

(فوٹو :اے پی/پی ٹی آئی)

ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہندوستان کی قانونی تاریخ میں اسی طرح سے یاد کیا جائے‌گا، جس طرح سے 1975 کے اے ڈی ایم جبل پور بنام شیوکانت شکلا معاملے کا فیصلہ یاد کیاجاتا ہے-فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے برعکس حالیہ فیصلے میں ایک بھی جرأت بھرا عدم اتفاق نہیں ہے۔ اصل میں کورٹ نے’سمرتھ کو نہیں دوش گنسائیں’پر مہر لگانے کا کام کیاہے اور حملے کو مناسب ٹھہرانے کی ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔

 جیسا کہ پرتیک سنہا نے ٹوئٹر پر لکھا، یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ کوئی بدمعاش لڑکا اسکول میں کسی بچےکی سینڈوچ چھین لے اور استاد ایک’متوازن فیصلہ’دیتےہوئے بدمعاش لڑکے کو وہ سینڈوچ رکھنے دے اور بچّے کو ‘معاوضے ‘ میں ایک سوکھابریڈ دے دے۔ ہمیں کورٹ کے اس قول کی سچائی یا جھوٹ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر بابر کے ایک سپہ سالار نے ایک ایسے مقام پر کی تھی، جہاں پہلے ایک غیر اسلامی ڈھانچہ تھا اور جس کو شاید تباہ کیا گیا ہو۔

یہ سچ ہے کہ ہندو مندروں کو مسلم حملہ آوروں کے ذریعے تباہ کیا گیا اور ان کی جگہ مسجدوں کی تعمیر کرائی گئی۔ کبھی کبھی تو مندر کے سامان کا استعمال کرتےہوئے۔ مثال کے طور پردہلی میں قطب مینار کے پاس قوت الاسلام مسجد کے ستون میں ہندو نقاشیاں ہیں۔ یا وارانسی میں گیان واپی مسجد جس کی پچھلی دیوار میں ہندونقاشیاں ہیں۔ یا جون پور کی اٹالا دیوی مسجد۔

لیکن سوال ہے کہ ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے یا پیچھے جانا ہے؟ بات الگ ہوتی اگر آج کسی ہندو مندر کو غیر قانونی طریقے سے توڑ‌کر اس کی جگہ پر مسجد بنا دی جائے۔ لیکن جب ایسا کوئی کام مبینہ طور پر 500 سال پہلے کیا گیا ہو، تو اس ڈھانچے کو پھر سے ہندو ڈھانچے میں بدلنے کی قواعد کا کیا مطلب  نکلتا ہے؟اس طرح کے بدلے کی کارروائی، جس کی مانگ وشو ہندو پریشد کرتا ہے، بیوقوفی ہوگی اور اس سے صرف سماج کا پولرائزیشن ہوگا اور یہ بس ان لوگوں کے سیاسی ایجنڈےکو ہی پورا کرے‌گا، جو ووٹ پانے کے لئے فرقہ وارانہ آگ کو جلائے رکھنا چاہتے ہیں۔

اپنے فیصلے کے پیراگراف 786 اور 798 میں کورٹ نے کہا ہے کہ مسلم فریق یہ دکھانے کے لئے کوئی ثبوت پیش نہیں کرپایا کہ 1528 میں مسجد کی تعمیر سے لےکر 1857 تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اور وہ یہاں نماز پڑھتے تھے۔ لیکن اس بارے میں ممکنہ طورپر کس طرح  کاثبوت پیش کیا جا سکتا تھا؟ اس وقت کا کوئی چشم دید گواہ ابھی تک زندہ نہیں ہو سکتا ہے اور یہ اچھی طرح سے پتہ ہے کہ 1857 کی آزادی کی جنگ میں اودھ کے تقریباً سارے ریکارڈ تباہ کر دئے گئے تھے۔

 کچھ بھی ہو، عام سمجھ یہ کہتی ہے کہ جب کسی عبادت کی جگہ کی تعمیر کی جاتی ہے، چاہے وہ مندر ہو، مسجد ہو، چرچ یا گرودوارا ہو، تو یہ تعمیر استعمال کے لئےہوتا ہے نہ کہ صرف سجاوٹ کے لئے۔ فیصلے کے پیراگراف 798 میں کہا گیا ہے، ‘ مسلمانوں کو عبادت سے روکنے اور ان کے قبضے کوہٹانے کا کام 22/23 دسمبر،1949 کی رات کو کیا گیا، جب ہندو مورتیوں کی تنصیب کے ذریعے مسجد کو ناپاک کیاگیا۔ مسلمانوں کو قانونی اختیارات  کے تحت باہر نہیں کیا گیا اور مسلمانوں سے غلط طریقے سے ایک مسجد چھین لی گئی، جس کی تعمیر 450 سال سے بھی پہلے ہوئی تھی۔ ‘

یہ بھی پڑھیں:ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مذہبی اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟

اس واضح نتیجے کے باوجود کورٹ نے ایک عجیب و غریب دلیل کے ذریعے یہ مقام ہندوؤں کو دے دیا ہے۔اس طرح سے یہ سوچنا بیوقوفی ہوگی کہ ایودھیا پر آئے فیصلہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوگی۔ 1938 کے میونخ کے معاہدے کی طرح تسکین  صرف حملہ آوروں کی بھوک کو اور بڑھانےکا کام کرتا ہے۔ 6 دسمبر، 1992 کو بابری مسجد انہدام کےٹھیک بعد وارانسی اور متھرا کے مسلم مقامات کو اگلا نشانہ بنانے کی دھمکی دینےوالا’ابھی تو یہ جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے ‘ کا نعرہ سنا گیا تھا۔ ان کاپھر سے دوہرایا جانا طے ہے۔

 بی جے پی رکن پارلیامان ساکشی مہاراج نے کہا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد ایک ہندو مندر کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس کو پھر سے اسی شکل میں بنایا جاناچاہیے۔ ایسا ہی دعویٰ بی جے پی کے مشتعل رہنماؤں کے ذریعے تاج محل کو لےکر بھی کیا گیا ہے۔ یہ سب آخر کہاں جاکر رکے‌گا؟ یہ کہنا کہ رام کا جنم ایک خاص مقام پر ہی ہوا تھا، بیوقوفی ہے۔ اگر رام کی سیرت اساطیری  نہ ہوکر، تاریخی بھی ہوتی، توبھی کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے کوئی آدمی کہاں پیدا ہوا تھا؟

ہندوستان ایک خوفناک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ جی ڈی پی کی نمو اوندھےمنھ گری ہوئی ہے، صنعتکاری اور کاروبار میں تیز گراوٹ ہے، بےروزگاری کی شرح تاریخی سطح پر ہے (خود حکومت کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق بھی)، بچوں کی غذائی قلت کی صورتحال تشویشناک ہے (گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق ہندوستان کا ہر دوسرا بچہ غذائیت کا شکار ہے)، ہندوستان کی 50 فیصد عورتیں خون کی کمی سے متاثر ہیں، کسانوں کی خودکشی رک نہیں رہی ہے،ایک بڑی آبادی کے لئے صحت خدمات اور اچھی تعلیم کی حالت قابل رحم ہے۔

 ایسا لگتا ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے پاس ان بڑے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔اس لئے عوام کا دھیان ان سے ہٹانے کے لئے ان کو یوگ دیوس، گئورکشا، صفائی مہم،آرٹیکل 370 کے خاتمہ جیسے پینترے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ تقسیم کے بعدسیاسی شرپسندوں کے ذریعے بابری مسجد کا انہدام ہندوستان کا سب سے بڑا المیہ تھا۔ ایودھیا کا فیصلہ کہتا ہے کہ یہ انہدام غیر قانونی تھا، لیکن ساتھ ہی وہ اس کو پاک-صاف بھی قرار دے دیتا ہے۔ بہت خوب، مائی لارڈس!

(مضمون نگار سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں ۔)