خبریں

مرکزی حکومت کو کسان کی تعریف اور کسانوں  کی تعداد کے بارے میں واضح جانکاری نہیں

کسان کی تعداد کاپتہ نہیں ہونے اور اس کی صحیح تعریف نہیں طے کئے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کی پی ایم-کسان جیسی اسکیموں پر کافی برا اثر پڑ رہاہے اور لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔

 (علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: حکومت کے پاس اس کی واضح تعریف نہیں ہے کہ آخر کون کسان ہے یاپھر کس کو کسان کہا جا سکتا ہے۔ حکومت کے پاس اس بات کی بھی صحیح جانکاری نہیں ہےکہ پورے ملک میں کل کتنے کسان ہیں۔ پچھلے ہفتے بی جے پی رکن پارلیامان اجئے پرتاپ سنگھ نے راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت سے کسان کی تعریف پوچھی تھی۔ لیکن وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر یہ جانکاری نہیں دے پائے۔ انہوں نے کسانوں کی کل تعداد کی جگہ آپریشنل لینڈ ہولڈنگ یعنی کہ کل جوت کی تعداد کے بارے میں جانکاری دی۔

واضح ہو کہ کسان کی تعداد کا پتہ نہیں ہونے اور اس کی صحیح تعریف نہیں طےکئے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کی پی ایم-کسان جیسی اسکیموں پر کافی برااثر پڑ رہا ہے اورلوگوں  کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔ اجئے پرتاپ سنگھ نے پوچھا تھا کہ کیا کسانوں  کی تعداد کا پتہ لگانےکے لئے کوئی سروے کرایا گیا ہے۔ اس پر تومر نے اپنے تحریری جواب میں کسان کی تعریف اوران کی تعداد کے متعلق کوئی جانکاری نہیں دی اور صرف کل جوت کی تعداد کے بارے میں بتایا۔

 انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت ان تمام کسانوں کو پی ایم-کسان کےتحت پیسے دیتی ہے جن کے پاس زراعت کے لئے زمین ہے۔دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، ایوان میں چرچہ کے دوران رکن پارلیامان نےحکومت کا دھیان اس جانب کھینچا تھا کہ جوت کی تعداد کسانوں  کی تعداد کےبرابر نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابلے کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ جوت کی تعداد کو کسانوں  کی تعداد کےماننے کی اس  تعریف کی وجہ سے ڈیری کسان، ماہی گیر، پھل اور پھول کاشتکار اورساتھ ہی ساتھ بےاراضی زراعتی مزدور ‘ کسان ‘ کے دائرے سے باہر ہو جاتے ہیں۔سال 2007 میں مشہور زرعی سائنس داں ایم ایس سوامی ناتھن کی صدارت میں سونپی گئی رپورٹ ‘ کسانوں کی قومی پالیسی’کے مطابق ‘ کسان’ اس آدمی کو مانا جائے‌گا جو زرعی اجناس کی کاشت کرتا ہے۔

اس کے مطابق کسان کی تعریف میں تمام زرعی کاشتکاروں، کاشتکاروں، زرعی مزدور، بٹائی دار، پٹےدار، مرغی پروری اور مویشی پروری، ماہی گیر، شہد کی مکھی پالنے والے، مالی، چرواہے، غیر-کارپوریٹ باغان کے مالکوں اور مزدوروں کے ساتھ-ساتھ مختلف زراعت سے متعلق پیشے جیسے سیریکلچر، ورمیکلچروغیرہ میں لگے افراد شامل ہیں۔ اس لفظ میں قبائلی/ جھوم کھیتی یا زراعت کی منتقلی اور چھوٹی اورغیر-جنگلات کی پیداوار کاذخیرہ، استعمال اور فروخت میں شامل لوگ بھی شامل ہیں۔

یہ رپورٹ ، جسے سوامی ناتھن رپورٹ بھی کہا جاتا ہے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ان کے لئے خدمات پیدا کرنے پر زور دیتی ہے۔ حالانکہ ابھی تک مرکزی حکومت نے اس کو پوری طرح سے نافذ نہیں کیا ہے۔ کسان رہنما اور تنظیم اس بات زور دیتے رہے ہیں کہ کسانوں کی حالت میں اصلاح لانےکے لئے کسان کی تعریف اور کسانوں  کی صحیح تعداد جاننا بےحد ضروری ہے تاکہ زرعی اسکیموں کا فائدہ تمام تک پہنچایا جا سکے۔

 کسانوں کی صحیح تعداد کا پتہ نہیں ہونے کی وجہ سے مالی سال 2019-20 کے پہلے سات مہینوں میں پی ایم-کسان اسکیم کی صرف 37 فیصد رقم خرچ ہو پائی ہے۔پی ایم-کسان کے لئے 75000 کروڑ روپے کا مختص کیا گیا ہے۔ حالانکہ لوک سبھا میں مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے بتایا کہ اکتوبر کے آخر تک اس اسکیم کے تحت کل 27937.26 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

 اس مالی سال کو پورا ہونے میں تقریباً چار مہینے ہی بچے ہیں، اس لئے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مختص رقم کا بھاری بھرکم حصہ مرکزی حکومت خرچ نہیں کر پائے‌گی۔ بلکہ دی وائر کی ایک رپورٹ میں وزارت زراعت کے جوائنٹ سکریٹری اور اس اسکیم کے سی ای او وویک اگروال نے بتایا تھا کہ پی ایم-کسان کی 30 فیصد رقم خرچ نہیں ہو پائے‌گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز کو کسانوں کی کل تعداد کاپتہ نہیں ہے۔