خبریں

حکومت 60 فیصدی آبادی کے ہاتھ میں پیسے دے، بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کرے: ابھیجیت بنرجی

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بات چیت کے دوران ابھیجیت بنرجی نے یہ بھی کہا کہ ضرورت مندوں کے لیے تین مہینے تک عارضی طور پر راشن کارڈ مہیا کرانے کی ضرورت ہے۔

ابھیجیت بنرجی (فوٹو : رائٹرس)

ابھیجیت بنرجی (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: دنیا بھر میں معروف اکانومسٹ ابھیجیت بنرجی نے کو رونابحران  کی مار جھیل رہی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے بڑے امدادی پیکیج کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے منگل کو کہا کہ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصہ کے ہاتھوں میں پیسے بھی پہنچانے ہوں گے۔

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بات چیت کے دوران بنرجی نے یہ بھی کہا کہ ضرورت مندوں کے لیے تین مہینے تک عارضی طور پر راشن کارڈ مہیا کرانےایم ایس ایم ای سیکٹر کی مدد کرنے اور مہاجر مزدوروں  کی امداد کے لیے قومی سطح  پر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس بات چیت کے دوران کانگریس رہنما نے کہا کہ ریاستوں  کو لاک ڈاؤن کے تناظر میں فیصلے کی چھوٹ ہونی چاہیے۔ گاندھی نے ان سے پوچھا کہ کیا ‘نیائے’ یوجنا کی طرزپر لوگوں کو پیسے دیےجا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا، ‘یقینی طور پر۔’ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نچلے طبقے کی 60 فیصدی آبادی کے ہاتھوں میں کچھ پیسے دیتے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہوگا۔ یہ ایک طرح کی  حوصلہ افزائی ہوگی۔

دراصل، پچھلے لوک سبھا چناؤ کے وقت اس وقت کانگریس صدر راہل گاندھی نے ‘نیائے’یوجنا کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے تحت ملک  کی تقریباً پانچ کروڑ غریب فیملی کو سالانہ 72 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔منریگا اور فوڈ سکیورٹی ایکٹ جیسےیو پی اے حکومت کے منصوبوں پر بنرجی نے کہا، ‘‘پریشانی یہ ہے کہ یو پی اے کی جانب سے نافذ کی گئیں یہ اچھی پالیسیاں بھی موجودہ وقت  میں ناکافی  ثابت ہو رہی ہیں۔ حکومت نے انہیں ویسے ہی نافذ کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی اگر مگر نہیں تھا۔ یہ بہت صاف تھا کہ یو پی اے کی پالیسیوں  کا آگے استعمال کیا جائےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ سوچنا ہوگا کہ جو ان منصوبوں کے تحت کور نہیں ہیں ان کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ایسے بہت لوگ ہیں بالخصوص مہاجر مزدور ہیں…اگر آدھار کے توسط سے پی ڈی ایس کافائدہ  ملتا تو لوگوں کو ہر جگہ فائدہ  ملتا۔ ممبئی میں منریگا نہیں ہے، اس لیے وہ اس کے اہل  نہیں ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہمیں ملک کی معیشت کے تحفظ کے بارے میں پر امید  ہونا چاہیے۔’ بڑے امدادی پیکیج کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بنرجی نے کہا کہ امریکہ، جاپان، یورپ یہی کر رہے ہیں۔ ہم نے بڑے پیکیج پرفیصلہ نہیں لیا ہے۔

ہم ابھی بھی جی ڈی پی کا ایک فیصدی پر ہیں، امریکہ 10 فیصدی تک تک چلا گیا ہے۔ ہمیں ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لیے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق مہاجر مزدوروں  کے مدعے کو ریاستی حکومت کے ذریعے  کنٹرول  نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کو دونوں طرف سے سنبھالنا مشکل ہے۔ یہ ایک ایسی پریشانی  ہے، جس کوآپ ڈی سینٹرلائز نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ آپ حقیقت  میں جانکاری جمع  کرنا چاہتے ہیں۔

بنرجی نے کہا، ‘اگر لوگ بیماری سےمتاثر ہیں تو آپ نہیں چاہتے کہ وہ پورے ملک  میں گھومیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ٹرین پکڑنے یا سفر کرنے سے پہلے، حکومت کو ایسے لوگوں کی جانچ کرانی چاہیے۔ یہ ایک اہم سوال ہے اور جس کوصرف مرکزی حکومت سلجھا سکتی ہے۔’

اس پر الگ رائے ظاہر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا، ‘بڑے فیصلے قومی سطح  پر ہونے چاہیے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے معاملے میں ریاستوں  کوآزادی  دینی چاہیے۔ موجودہ حکومت کا نظریہ  تھوڑا الگ ہے۔ وہ اسے اپنے اختیار میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ یہ دونظریے ہیں، ضروری نہیں کہ ایک غلط اور ایک صحیح ہو۔ میں ڈی سینٹرلائزیشن پر زور دیتا ہوں۔’

بنرجی نے یہ بھی کہا کہ جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں انہیں کم سے کم تین مہینے کے لیے عارضی طور پر راشن کارڈ جاری کئے جائیں تاکہ انہیں اناج مل سکے۔ گاندھی کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ضرورت مندوں  تک پیسے پہنچانے کے لیے ریاستی حکومتوں اوراین جی او کی مدد لی جا سکتی ہے۔

انہوں نے امریکہ اور برازیل کے صدر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ غلط تصورہے کہ ایسے بحران  کے وقت ‘مضبوط شخص’صورتحال سے نپٹ سکتا ہے۔بنرجی نے کہا، ‘یہ(مضبوط قیادت  کا تصور)تباہ کن ہے۔ امریکہ اور برازیل دو ایسے ملک  ہیں، جہاں حالت بری طرح گڑبڑ ہو رہی ہے۔ یہ دو مبینہ  مضبوط رہنما ہیں، جو سب کچھ جاننے کا دکھاوا کرتے ہیں، لیکن وہ جو بھی کہتے ہیں، وہ مضحکہ خیزہوتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ‘مضبوط شخص’ کے اصول  پریقین کرتا ہے تو یہ وقت اپنے آپ کو اس غلط فہمی سے بچانے کا ہے۔