خبریں

ہماچل پردیش: لاک ڈاؤن میں سرکار کی ناکامی پر رپورٹ کرنے والے چھ صحافیوں پر 14 ایف آئی آر

کو رونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن کے دوران ہماچل پردیش میں مہاجر مزدوروں کی پریشانیوں کو سامنے لانے اور انتظامی کمیوں کو اجاگر کرنے والے کم سے کم چھ صحافیوں کو پچھلے دو مہینے میں 14 ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کو رونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن کے دوران ہماچل پردیش میں مہاجر مزدوروں کی پریشانیوں کو سامنے لانے اور انتظامی کمیوں کو اجاگر کرنے والے کم سے کم چھ صحافیوں کو پچھلے دو مہینے میں 14 ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نیوزلانڈری کے مطابق، مقامی اخبار دویہ ہماچل کے رپورٹر 38 سالہ اوم شرما کے خلاف اب تک تین ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ ان پر پہلی ایف آئی آر 29 مارچ کو سولن ضلع کے بدی میں مہاجر مزدوروں کے مظاہرہ کا فیس بک لائیو کرنے کی وجہ سے درج کی گئی۔

موقع پر پولیس حکام اور مقامی رہنماؤں کے پہنچنے اور مہاجر مزدوروں کے ساتھ ان کی بات چیت کی وجہ سے یہ فیس بک لائیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا تھا جس کے بعد ویڈیو کو سنسنی یا فیک نیوز بتاتے ہوئے ایف آئی آر درج کی گئی اور اس کی جانکاری وہاٹس ایپ کے ذریعے بدی کے پولیس آفیسر روہت ملپانی کے ذریعے دی گئی۔

شرما کے خلاف دوسری ایف آئی آر 26 اپریل کو فیس بک پر ایک میڈیا ہاؤس  کی خبر شیئر کرنے کے لیے درج کی گئی، جس کومیڈیا ہاؤس  نے سرکار کی تردیدکے بعد ہٹا لیا۔ان پر تیسری ایف آئی آر 27 اپریل کو بدی، بروٹیوالا اور نالاگڑھ میں کرفیو میں ڈھیل دیےجانے کے ضلع مجسٹریٹ کے احکامات میں وضاحت کی کمی  کی فیس بک پر تنقیدکرنے پر درج کی گئی۔

شرما نے کہا کہ 16 سالوں کی صحافت میں ان پر پہلی بار ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اخبار کا سرکولیشن بند ہونے کی وجہ سے میں فیس بک لائیو کر رہا تھا۔ ایف آئی آر درج ہونے کا بعد میرا کرفیو پاس رد کر دیا گیا ہے اور میں گھر بیٹھ گیا ہوں۔شرما کی طرح ہی نیوز 18 ہماچل کے رپورٹر 34 سالہ رپورٹر جگت بینس کے خلاف بھی لاک ڈاؤن کے دوران انتظامی کی کمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے پچھلے 50 دن میں تین ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

وہیں، پترکار منڈی کے 44 سالہ  صحافی  اشونی سینی پر لاک ڈاؤن کے دوران پانچ معاملے درج کئے گئے ہیں۔ایک نیشنل نیوزچینل سے جڑے ڈل ہاؤس کے صحافی وشال آنند کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان پر دوسری ایف آئی آر، پہلی ایف آئی آر درج کئے جانے پر انتظامیہ کی تنقید کرنےکی وجہ سے درج کی گئی۔منڈی میں پنجاب کیسری کے صحافی سوم دیو شرما کے خلاف ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ان سبھی صحافیوں پر لگ بھگ ایک جیسی دفعات  میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں جھوٹی وارننگ کے لیے سزا کا اہتمام کرنے والے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، 2005 کے آرٹیکل 54، آئی پی سی کی دفعات 182 (جھوٹی جانکاری )، 188(ایک لوک سیوک کے آرڈر کی حکم عدولی)، 269 (ایک خطرناک بیماری کا انفیکشن پھیلانے کے لیے لاپروائی سے کام کرنے کا امکان)، 270(کسی جان لیوا بیماری کو پھیلانے کے لیے کیا گیا خطرنال یا پھر نقصاندہ کام)اور 336(زندگی یا دوسروں کی ذاتی تحفظ کو خطرے میں ڈالنا)، آئی ٹی ایکٹ، 2000 کی دفعہ66 سمیت کئی دوسری دفعات شامل ہیں۔

سولن ڈسٹرکٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور پریس کلب کے صدر بھانو ورما نے کہا، ‘یہ پوری طرح سے سچائی کو دبانے کی کوشش ہے۔’انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے کے پس پردہ  سچائی یہ ہے کہ دھیرے دھیرے گرین زون کی طرف بڑھ رہے ہماچل پردیش میں اچانک سے معاملے بڑھنے لگے اور اب ہمارے پاس تین موت کے ساتھ 18 معاملے ہیں۔وزیر اعلیٰ خوش نہیں ہیں۔ ہم رپورٹ کرتے ہیں تو ہم پر لگام لگانے کے لیے ان کے پاس ایف آئی آر ہے۔

جب ڈسٹرکٹ پبلک انفارمیشن آفیسر افسر سچن سنگر سے پوچھا گیا کہ کیا تنقیدی  رپورٹنگ پر روک لگاکر جان بوجھ کر پریس کی آزادی پر حملہ کیا جا رہا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ ایسا آپ کا ماننا ہو سکتا ہے۔ ایک بحران  کے دوران ان چیزوں کے بارے میں تھوڑامحتاط ہونا چاہیے۔