خبریں

پنجاب: صحافی کی بے رحمی سے پٹائی، ملزم دو پولیس اہلکار سسپنڈ

ایک دوسرے معاملے میں پنجاب کے ایک وزیر کے جیوتش کے تئیں رجحانوں کو لےکر رپورٹ لکھنے پر ایک صحافی کے خلاف مختلف دفعات کے تحت  معاملہ درج کیا گیا ہے۔

صحافی میجر سنگھ۔ (فوٹو: یس پنجاب)

صحافی میجر سنگھ۔ (فوٹو: یس پنجاب)

نئی دہلی:  پنجاب کے ایک مقامی اخبار کے صحافی کی جمعہ کو دو پولیس اہلکاروں نے بے رحمی سے پٹائی کی۔رپورٹ کے مطابق، روزانہ پہریدار نام کے اخبار کے صحافی میجر سنگھ پنجابی ایک مقامی گرودوارے میں دو گروپوں کے بیچ کی بیٹھک کور کرنے گئے تھے۔ اسی دوران موہالی پولیس اسٹیشن فیز 1 کے دو اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی)نے ان کی پٹائی کر دی۔

صحافی میجر سنگھ پنجابی کی تصویریں اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملزم پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کر دیا گیا۔یہ واقعہ گزشتہ  جمعہ  کو دوپہر لگ بھگ 1.30 بجے  ہوا۔ میجر سنگھ فی الحال موہالی کے سول ہاسپٹل میں بھرتی ہیں۔میجر سنگھ نے کہا کہ صحافی ہونے کی جانکاری دینے کے بعد بھی دونوں پولیس اہلکار ایک نجی گاڑی میں بٹھاکر انہیں موہالی کے فیز 1 پولیس اسٹیشن لے گئے۔ انہیں جس گاڑی میں بٹھایا گیا اس کا نمبر پلیٹ ہریانہ کا تھا۔

انہوں نے بتایا، ‘میرے گاڑی  سے اترنے سے پہلے ہی اے ایس آئی اوم پرکاش نے ڈنڈے سے میری پٹائی کرنی شروع کر دی۔ دونوں مجھے گھسیٹ کر لاک اپ میں لے گئے، جہاں نہ صرف مجھے پیٹا کیا گیا بلکہ بے عزت بھی کیا گیا۔ انہوں نے میری پگڑی بھی کھول دی۔ میں باربار انہیں کہتا رہا کہ میری پگڑی کو ہاتھ نہ لگائیں لیکن انہوں نے میری نہیں سنی۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے میرا کنگھا (سکھ مذہب کے پانچ علامتوں میں سے ایک)بھی پھینک دیا۔’

میجر سنگھ نے کہا کہ 22 مئی کی دوپہر کو وہ گرودوارے میں دو گروپوں کے بیچ ایک بیٹھک کو کور کرنے گئے تھے۔انہوں نے کہا، ‘جب میں وہاں پہنچا، میں نے دیکھا کہ دونوں گروپ کے 20 سے 25 لوگ گرودوارے کے اندر ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ کچھ منٹ بعد میں نے اے ایس آئی اوم پرکاش اور امرناتھ کو دیکھا، جو جسپال سنگھ نامی کو کمرے سے باہر لا رہے تھے۔ پولیس کی اس حرکت کو دیکھ کر میں نے اپنے موبائل فون سے اسے ریکارڈ کرنا شروع کر دیا اور جسپال سے بات کرنے کی کوشش کی۔’

وہ کہتے ہیں، ‘میں اس سے پہلے کہ کچھ کہہ پاؤں، جسپال پولیس کے شکنجے سے بچ کر بھاگ گیا۔ حالانکہ بعد میں اسے پکڑ لیا گیا لیکن اسے گاڑی میں بٹھانے سے پہلے وہ ایک بار پھر بھاگ گیا، جس کے بعد انہوں نے مجھے گالی دینی شروع کر دی اور پولیس تھانے لے گئے۔ اگر موہالی فیز 1 کے ایس ایچ او منصور سنگھ مجھے بچانے نہیں آئے ہوتے تو میں مر گیا ہوتا۔’

میجر سنگھ نے کہا کہ موہالی پولیس نے ابھی اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بائیں پیر، دونوں بازو اور پیٹھ میں شدید چوٹیں آئی ہیں۔موہالی کے ایس پی ہرویندر سنگھ ورک نے کہا کہ دونوں ملزم پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے اور محکمہ جاتی  جانچ کے آرڈر دے دیے گئے ہیں۔

حالانکہ، میجر سنگھ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان سے سب بھلاکر آگے بڑھنے کو کہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘یہ پریس کی آزادی پر حملہ ہے اور اگر ایک صحافی محفوظ  نہیں ہے تو کوئی بھی اسٹرنگر اورعام آدمی کی حالت کاتصور کر سکتا ہے۔ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنی چاہیے اورملزم اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔’

موہالی کے ڈپٹی کمشنر گریش دیالن نے کہا کہ انہوں نے موہالی کے ایس ڈی ایم جگدیپ سہگل کو معاملے کی آزادانہ  مجسٹریٹ جانچ کرنے اور تین دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔اس بیچ چنڈی گڑھ پریس کلب اور چنڈی گڑھ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر بلوندر سنگھ اور ڈوسرے نے صحافی پر حملے کی مذمت کی اور سخت قدم اٹھانے کی مانگ کی۔

وہیں ایک دوسرے معاملے میں پنجاب کے ایک وزیر کے جیوتش کو لےکر رجحانوں کے بارے میں لکھنے پر ایک صحافی کے خلاف مختلف دفعات میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔گزشتہ 22 مئی کو اخبار پنجابی جاگرن کے صحافی جے سنگھ چھبر کے خلاف چام کور صاحب پولیس نے معاملہ درج کیا۔

صحافی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ پنجاب کے ایک وزیر جیوتشیوں سے مشورہ لےکر کام کرتے ہیں۔پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 188 (سرکاری افسر کی حکم عدولی) اور دفعہ 505 (خلفشار پیداکرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر افواہیں پھیلانا)اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک میڈیم سے فحش مواد پھیلانا) کے تحت چھبر کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔

معلوم ہو کہ 22 مئی کو ہی ایک جھگڑے کو لےکر رپورٹ کرنے کی وجہ سے ہی جالندھر ضلع کے بھوگ پور کے پاس کانگریس کے ایک سرپنچ نے پی ٹی سی چینل کے رپورٹر حسن لال پر حملہ کر دیا تھا۔