خبریں

سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کہا، تبلیغی جماعت پر اکثر میڈیا اداروں کی کوریج متوازن تھی

جمعیۃعلما ہند نے ایک عرضی  میں مرکزی حکومت  پر الزام  لگایا تھا کہ اس نے ملک میں کورونا وائرس کی شروعات میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے پھیلائی گئی فیک نیوز کو روکنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ مرکزنے اس کے جواب میں کہا ہے کہ میڈیا کے صرف ایک چھوٹے سے طبقہ نے ہی ایسا کیا تھا۔

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:مرکزی حکومت  نے سوموار کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ نظام الدین کے تبلیغی جماعت معاملے میں ملک کی مین اسٹریم میڈیا نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ متوازن اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، سرکار نے کہا کہ اس دوران میڈیا کے صرف ایک چھوٹے سے طبقہ نے ہی اقلیتی کمیونٹی کو نشانہ بنایا۔

وزارت اطلاعات ونشریات نے کہا، ‘ٹائمس آف انڈیا، ہندستان ٹائمس اور انڈین ایکسپریس کے پرنٹ ایڈیشن  سمیت ملک کے اہم اخباروں  نے اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر حقائق پر مبنی  رپورٹنگ کی ہے۔ وہیں، پرنٹ اور وائر جیسے آن لائن نیوز پورٹل نے بھی تبلیغی جماعت کے معاملے میں معروضی  رپورٹنگ کی۔’

بتا دیں کہ جمعیۃعلما ہندکی جانب سے دائر کی گئی عرضی  پر مرکزی حکومت نے یہ جواب دیا۔عرضی  میں سرکار پرالزام لگایا گیا تھا کہ سرکار نے ملک میں کورونا وائرس کی شروعات میں اقلیتی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے پھیلائی گئی فیک  نیوز کو روکنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

وہیں، سرکار کا کہنا ہے کہ اس نے فیک نیوز کے خلاف فوراً کارروائی کی تھی۔

سرکار نے سپریم کورٹ کو بتایا، ‘وزارت نے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور انسٹاگرام کے 743 اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی ہدایات دیے۔ ان میں سے کچھ یو آر ایل تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے اور یہ فرقہ وارانہ  تھے اور اس نے کورونا معاملے کو فرقہ وارانہ  رنگ دیا، جس نے پبلک سسٹم  کی حالت کو بگاڑا۔’

بتا دیں کہ دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں واقع مرکز میں 13 مارچ سے 15 مارچ تک کئی اجتماع  ہوئے تھے، جن میں سعودی عرب، انڈونیشیا، دبئی اور ملیشیا سمیت کئی ممالک  کے مبلغوں نے حصہ لیا تھا۔ملک  بھر کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے بھی اس میں حصہ لیا تھا، جن میں سے کئی کوروناسے متاثر پائے گئے تھے۔ اس کولےکر مسلم کمیونٹی پر کو رونا پھیلانے کا الزام  لگایا گیا تھا۔