خبریں

می ٹو: ایم جے اکبر کی جانب سے دائر ہتک عزت کے معاملے میں پریہ رمانی بری

پریہ رمانی نے سال 2018 میں‘می ٹو’ مہم کے تحت سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر  پر جنسی ہراسانی کے الزام  لگائے تھے۔ اکبر کی جانب سے دائر ہتک عزت کے معاملے سے رمانی کو بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ عزت  کے حق کی قیمت پر وقار کے حق  کو محفوظ  نہیں کیا جا سکتا۔

پریہ رمانی اور ایم جے اکبر۔ (فوٹو:پی ٹی آئی)

پریہ رمانی اور ایم جے اکبر۔ (فوٹو:پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کے مجرمانہ ہتک عزت معاملے میں صحافی  پریہ رمانی کو بدھ کو بری کر دیا۔ ساتھ ہی، عدالت نے کہا کہ ایک خاتون  کو دہائیوں بعد بھی کسی پلیٹ فارم  پر اپنی شکایت رکھنے کا حق ہے۔

رمانی نے اکبر کے خلاف جنسی ہراسانی کےالزام  لگائے تھے۔ اکبر نے ان الزامات کو لےکر رمانی کے خلاف 15 اکتوبر 2018 کو یہ شکایت دائر کی تھی۔ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رویندر کمار پانڈے نے اکبر کی شکایت یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ ان کے (رمانی)خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔

لائیو لاء کے مطابق، عدالت نے کہا، ‘جنسی ہراسانی کی وجہ سے وقار مجروح ہوجاتا ہے اورخوداعتمادی چھن جاتی ہے۔ عزت  کے حق کی قیمت پر وقارکے حق کو محفوظ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔’کورٹ نے اس وقت وشاکھا گائیڈ لائن نہیں ہونے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ، ‘متاثرہ پرجنسی ہراسانی کے اثرات  کو سماج کو ضرورسمجھنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘آئین  کے تحت آرٹیکل 21 اور برابری  کے حق  کی گارنٹی ملی ہوئی ہے۔ انہیں اپنی پسند کے کسی بھی منچ پر اپنا معاملہ رکھنے کا پورا حق ہے۔’

آرڈرمیں کہا گیا،‘اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارا سماج یہ سمجھے کہ کئی بار ذہنی  ٹراماکی وجہ سے متاثرین  سالوں تک آواز نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ جنسی ہراسانی  کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ایک خاتون  کو سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔’

عدالت نے کہا کہ جس ملک میں خواتین کے احترام  کے بارے میں رامائن اور مہابھارت جیسےرزمیہ لکھے گئے ہوں ، وہاں خواتین  کے خلاف جرم  ہونا شرمناک ہے۔عدالت نے اکبر اور رمانی کے وکیلوں کی دلیلیں پوری ہونے کے بعد ایک فروری کو اپنا فیصلہ 10 فروری کے لیے محفوظ رکھ لیا تھا۔

حالانکہ، عدالت نے 10 فروری کو فیصلہ 17 فروری کے لیے یہ کہتے ہوئے ٹال دیا تھا کہ چونکہ دونوں ہی فریق  نے تاخیر سے اپنی تحریری  دلیل سونپی ہے، اس لیے فیصلہ پوری طرح سے نہیں لکھا جا سکا ہے۔کورٹ نے ملزم  کے حق میں اس بات کو قبول کیا کہ دیگر خواتین کی جانب سے اکبر کے خلاف شکایت کیے جانے کے بعد وہ آواز اٹھا پائیں۔عدالت  نے یہ بھی قبول کیا کہ اکبر بہت معزز شخص نہیں ہیں۔

کورٹ نے رمانی کی اس دلیل کو قبول  کیا کہ اکبر کا خود کو بہت معزز شخص بتایا جانا غزالہ  وہاب کے بیان کے بعد خارج ہوتا ہے، جن کا مبینہ طور پر اکبر نےجنسی استحصال  کیا تھا۔

اس فیصلے پر ردعمل  دیتے ہوئے پریہ رمانی نے کہا، ‘میں بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔ میری سچائی کو قانون کی عدالت میں قبول  کر لیا گیا ہے۔’

وہیں رمانی کی وکیل ریبیکا جان نے کہا، ‘یہ ایک غیرمعمولی فیصلہ  ہے، ہم شکرگزار  ہیں کہ عدالت نے بہت محتاط ہوکرسارے شواہد کو دیکھا ہے۔ ڈیفینس نے اس کی  بہت سخت مخالفت  کی تھی۔’

معلوم ہو کہ می ٹو مہم کے تحت سال 2018 میں سابق مرکزی وزیر اور صحافی ایم جے اکبر پر سینئر صحافی  پریہ رمانی نے لگ بھگ 20 سال پہلے ان کاجنسی استحصال کرنے کاالزام لگایا تھا۔ اس کے بعد تقریباً 15 سے 16 خواتین ایم جے اکبر پر جنسی استحصال  کا الزام  لگا چکی ہیں۔

ہندوستان میں گزشتہ سال ‘ می ٹو ‘ مہم نے جب زور پکڑا تب اکبر کا نام سوشل میڈیا میں آیا۔ ان دنوں وہ نائیجیریا میں تھے۔ پھر انہوں نے 17 اکتوبر کو مرکزی کابینہ کاؤنسل سے استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے بعد 15 اکتوبر 2018 کو اکبر نے پریہ رمانی کے خلاف نئی دہلی کے پٹیالہ ہاؤس عدالت میں ایک نجی مجرمانہ ہتک عزت  کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ پریہ انڈیا ٹوڈے، دی انڈین ایکسپریس اور دی منٹ جیسے اخباروں میں کام کر چکی ہیں۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)