فکر و نظر

کیا جموں و کشمیر کا نام بدل کر جموں پردیش رکھا جائے گا؟

کئی افواہوں کے درمیان جس افواہ نے واقعی خوف و ہراس پھیلایا ہے وہ یہ ہے کہ وادی کشمیر کے کل رقبہ 15520مربع کلومیٹر میں سے 8600مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں کو بسا کر  ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز  ہے۔ اس کا نام  پنن کشمیرہوگا۔

علامتی تصویر، فائل فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فائل فوٹو: پی ٹی آئی

پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے مکینوں کا چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی طاقت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کر ان کو ذہنی مریض بنانا چاہتی ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خودحکومت کے ہی چندایسے اقدامات کے علاوہ دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے، جہاں حال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تحویزیں سجھائی گئیں۔

تقریباً 300 مزید نیم فوجی دستوں کی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیشتر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے  پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟ شاید کشمیر واحد خطہ ہوگا، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا روپ بھی دھار لیتی ہیں۔

لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں پر لگام کسنے کے لیے یقین دہانی  توکروائی ہے کہ یہ فوجی مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کروانے گئے تھے اور اب واپس آگئے ہیں۔مگر5اگست 2019کو جب ہندوستانی آئین میں درج خصوصی حیثیت کو کاالعدم اور ریاست کو تقسیم کرکے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا، سے قبل بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔

اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے  سیکورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معلوم کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جس نے ان کو یقین دہائی کروائی کی دفعہ 370اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح و مشورہ کیا جائےگا۔ مگر سری نگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اب موجودہ لیفٹننٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟

پچھلے ایک ہفتے سے جاری ہونے والے پے در پے احکامات جیسے سری نگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیے پاسوں کی تیاری، پولیس کی طرف سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے 5اگست 2019سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کاروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جماعت اسلامی و جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان وہ ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنے سے اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے۔

لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ 370 اور35اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس بس ایک زیر جامہ بچا تھا، جس کو 5اگست 2019کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔

ایک افواہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے جموں پردیش رکھا جائےگا، یعنی کشمیر حذف کیا جائےگا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریں گے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائےگی، جس کا حوالہ دےکر کشمیر کو ہندوتوا کے وسیع ایجنڈہ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

ایک اور افواہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائےگا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً 35فیصد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں 15سے 20لاکھ تک مسلمان اور جڑ جائیں گے اور اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائےگا۔

فی الحال وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی پیر پنچال اور چناب ویلی علاقے پہلے ہی سے ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ نئی دہلی کے سیکولر رہنماؤں نے بھی  پچھلے 70 سالوں سے ان علاقوں کو وادی کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔

ان علاقوں کو پہلی بار 2004کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دور میں پونچھ اور شوپیان کو ملانے والے مغل روڑ اور دیگر رابطوں کی تعمیر نے ملانے کا کام کیا تھا۔دوسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔

اس قدم سے مجوزہ  لداخ صوبہ میں 25لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔

 ایک اور افواہ ہے کہ جموں کو موجودہ صورت میں ہی الگ صوبہ کا درجہ دیا جائےگا۔ جموں میں کئی گروپ آجکل ایسا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران نے اس کو مسترد کر دیا ہے۔ گوکہ جموں کو الگ صوبہ کی حیثیت دینا اور وادی کشمیر کو الگ تھلگ کرناہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا پرانا ایجنڈہ رہا ہے۔

اس کے ایک لیڈر آنجہانی  بلراج مدھوک اس کے پرزور حمایتی تھے۔ 5اگست2019سے قبل جب پارلیامنٹ میں ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا، تو اس وقت بھی ریاست کے دو کے بجائے تین حصے کرنے کی تجویز پر وزارت داخلہ اور وزارت اعظمیٰ کے دفتر میں خاصی بحث ہوئی تھی۔ مگر مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد جموں کو الگ حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

چونکہ حال ہی میں ہندوستانی میڈیا کی خبر کے مطابق وزیر اعظم مودی سیا سی جمود کو توڑنے کے لیے جلد ہی جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کرنےوالے ہیں، اسی لیے یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائےگا۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار ہے کہ ایسا شاید ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔

گو کہ ریاستی اسمبلی دفعہ 370یا 35اےکو واپس تو نہیں لا پائے گی، مگر نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں کئی اقدامات کو لگام لگ سکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاں کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی رہےگا۔

مگر جس افواہ نے واقعی خوف و ہراس پھیلایا ہے وہ یہ ہے کہ وادی کشمیر کے کل رقبہ 15520مربع کلومیٹر میں سے 8600مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں کو بسا کر  ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز  ہے۔ اس کا نام  ”پنن کشمیر“ ہوگا۔  یعنی  وادی کشمیر کو دو علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

پنن کشمیر کے نقشے سے معلوم ہوتا ہے وادی کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اس کی زد میں آئےگا اور محض ٹنگڈار، اوڑی اور پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو بسنے دیاجائےگا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے باضابطہ ایک میٹنگ میں وادی کشمیر کے اندر ایک اسرائیل طرز کا خطہ بنانے کی تجویز دے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھےکہ مودی حکومت اس کو پارلیامنٹ میں پیش کرنے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ 5اگست2019کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اپ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں بلکہ ہندو احیائے نو کے لیے ملا ہے۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو ہی آڑ ے ہاتھوں اس وجہ سے لیا کیونکہ وہ مسلمانوں میں آؤٹ ریچ کرنے کے فراق میں ہے، اور کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے۔

بی جے پی کی گود میں بیٹھے مسلمانوں میں اگر ذرا بھی ضمیر نام کی رمق باقی ہے، تو یہ ان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ امبردار کا کہنا تھا کہ لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی بھی غلام ہے۔ کئی مقریرین نے اسرائیل میں یہودی باز آباد کاروں کی طرز پر وادی کشمیر کے اندر پنن کشمیر تشکیل دینے اور  اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی۔

افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون و چین چھین رہا ہے، جب پچھلے کئی ماہ سے ہندوستان  اور پاکستان کے درمیان خاموش بیک چینل سفارت کاری کی وجہ سے سرحد پر سیز فائر پر رضامندی ہوئی ہے اور پچھلے سو سے زائد دنوں سے کامیابی سے نافذ ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورمز میں موجودہ ہندوستانی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور مودی پر براہ راست حملہ کرنے سے کچھ عرصہ سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔

جس سے آر ایس ایس کو مغربی ممالک میں خاصی راحت ملی ہے۔ مگر کیا اعتماد سازی کے یہ اقدامات یک طرفہ ہیں؟ شاید یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض ہندوستان  نے کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟

کم سے کم اس کالم میں جن افواہوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس پر ہی کوئی یقین دہانی حاصل کر کے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچایا جا سکے۔