خبریں

حجاب تنازعہ: بی جے پی لیڈر بولے – اس معاملے میں عدالت کا رخ کرنے والی لڑکیاں دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں

بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری اور اُڈپی گورنمنٹ پی یو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یشپال سورنا نے کہا کہ لڑکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبعلم نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیان دے کر وہ ججوں کی توہین کر رہی ہیں۔

امت شاہ کے ساتھ بی جے پی لیڈر یشپال سوورنا (دائیں)۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@YashpalBJP)

امت شاہ کے ساتھ بی جے پی لیڈر یشپال سوورنا (دائیں)۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@YashpalBJP)

نئی دہلی: بی جے پی کے سینئر لیڈر اور اُڈپی گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے وائس چیئرمین یشپال سوورنا نے ان لڑکیوں کو ‘دیش دروہی’ قرار دیا ہے جنہوں نے کالج کے احاطے میں حجاب پہننے کا مطالبہ کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔

واضح ہو کہ عدالت نے منگل (15 مارچ) کو لڑکیوں کی ان عرضیوں کو خارج کردیا ، جن میں یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا  کہ، حجاب پہننا اسلام میں لازمی مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور اس نے مسلم طالبات کو کلاسز میں حجاب پہننے کا مطالبہ  کرنے والی عرضیوں کو خارج کر دیا۔ عدالت نے اس کے ساتھ ہی ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو  برقرار رکھا۔

بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری سوورنا نے کہا، لڑکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبعلم نہیں ہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں۔ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیانات دے کر ججوں کی توہین کر رہی ہیں۔ میڈیا میں ان کا بیان عدالت کی ہتک کرنے جیسا ہے۔

سوورنا نے کہا، جب یہ طالبات دانشور ججوں کے فیصلے کو سیاسی اور قانون کے خلاف قرار دیتی ہیں تو ہم ان سے ملک کے لیے کیا امید رکھیں؟ انہوں نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کی دشمن ہیں۔

لڑکیوں کے سپریم کورٹ جانے کے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف ریاست تک محدود رہے گا لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ پورے ملک میں لاگو ہوگا۔

بی جے پی لیڈر نے کہا،ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ ایک ایسا فیصلہ سنائے گی جو پورے ملک کے لیے اچھا ہوگا۔

 بتا دیں کہ منگل کو ہی کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ کرناٹک کے اُڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں سب سے پہلےاس وقت شروع ہواتھا،  جب گزشتہ سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے ردعمل میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف  پہن کر کالج آنے لگے۔

رفتہ رفتہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا، جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئےکرناٹک ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے 10 فروری کو طالبعلموں سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کے حل ہونے تک تعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کریں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)